تحریر: شیخ خالد زاہد
کائنات میں موجود ہر شے اپنے ہونے کی کوئی نا کوئی وجہ رکھتی ہے۔ انسان ان وجوہات کو جاننے کیلئے سرگردہ ہے، اسی کوشش میں زمین کی تہہ تک چلاگیااور کیا کیا قدرت کے پوشیدہ خزانے نکال لایا۔ ہم ان قدرت کے خزانوں کو مدنیات کے نام سے جانتے ہیں۔ پھر حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی نشاندہی پر کہ “ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں” کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا اور آسمان کا رخ کیا۔ کہکشاؤں میں گھومنے لگا، رہنے کیلئے نئی جگہوں کی تلاش شروع کردی اور مریخ پر زندگی کے اثرات کی بحث چھیڑ دی۔ ایک طرف تو انسان کو ضرورت کچھ نیا کرنے پر اکساتی ہے تو دوسری طرف انسان یکسانیت سے چھٹکارا پانے کیلئے کچھ نیا کرنے کی جستجو میں مصروف ہوجاتاہے ۔ اختلافِ رائے کی بنیاد پر مختلف نظریات نے جنم لینا شروع کیا۔ نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر معاشرتی تبدیلیاں رونما ہونی شروع ہوئیں۔ ان اختلافات کی بنیاد پر ہی سرحدیں بننا شروع ہوئیں۔ اب ان سرحدوں کی حفاظت کیلئے جدید ترین اسلحہ سے لیس فوجیں تعینات ہیں۔ ان سرحدوں کی حفاظت کیلئے انسان نے ایٹم بم بنا لیا ہے۔ سرحدوں کے ادھر بھی ادھر بھی ہماری طرح کے لوگ رہتے ہیں مگر سرحدوں کے تعین کرنے والوں نے ایک دوسرے سے ڈرنے اور خوفزدہ رہنا سیکھا دیا ہے۔
پاکستان دنیا کی وہ واحد مملکت ہے جسے نظریاتی مملکت کہا جاتا ہے ۔ جس کیلئے دوقومی نظریہ کی بنیاد پر تحریک چلائی گئی۔ یہ دوقومی نظریہ بنیادی طور پر ہندو قوم اور مسلمان قوم تھا۔ ہندوستان میں اور بہت ساری قومیں بھی آباد تھیں لیکن ہندو اور مسلمان دو اکثریتی قومیں تھیں یا اسکی کوئی اور وجہ۔ یقیناً ہندوستان میں ہندؤں کی آبادی مسلمانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی لیکن انگریز نے اقتدار مسلمان حکمرانوں سے چھینا تھا اور ہندو یہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اقتدار واپس مسلمانوں کو ملے۔ تقریباً ہزار سالہ اقتدار کا آفتاب غروب ہوگیا اور حکمران طبقے کی زبوں حالی کا دور شروع ہوگیا۔ سال ہا سال سے محکوموں کو بدلہ لینے کا موقع مل گیا جلتی پر تیل ڈالنے کا موقع مل گیا۔ حقیقت میں دو قومی نظریہ سر سید احمد خان نے پیش کر دیا تھا لیکن ان کی نظر میں ان کا بنیادی مقصد مسلمانانِ ہند کی تعلیم کا مسلئہ تھا اور وہ یہ چاہتے تھے کہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کیلئے ہمیں تعلیم حاصل کرنا ہوگی۔ کسی مرکزی قیادت کا نا ہونا ان مسائل کو بڑھاتا چلا گیا۔ آخر کار ہندؤں کو موقع مل گیا کہ وہ مسلمانوں سے چن چن کر اپنے اوپر حکومت کرنے کے بدلے لیں۔ ہندو بظاہر انگریزوں سے لڑتے جھگڑتے مگر ان کا اصلی دشمن انگریز نہیں تھا۔
وہ انگریزوں کہ ہاتھ مسلمانوں کے خلاف مضبوط کرتے اور انگریز سرکار سے قریب ہونے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ مسلم لیگ سن 1906 میں وجود میں آئی اور تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ مسلمانوں کے سارے رہنماء ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوگئے اور ایک مقصد کے حصول کیلئے دن رات ایک کردیا۔ دن رات کی محنت رنگ لائی، انگنت قربانیاں رنگ لائیں اور دیکھنے والوں نے قیامت سے پہلے قیامت کے منظر دیکھے۔ اس سرزمین پاکستان کیلئے ماؤں نے اپنے جان سے پیارے لالوں کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ اس سرزمین کو اپنے لہو سے سینچا اور اسکی ابیاری کی۔ پاکستان وجود میں آگیا۔ دنیا کی دو عزیم طاقتوں (ہندو اور انگریز) کو تاریخ کی بدترین سیاسی و نظر یاتی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان قائدِاعظم کی انتہک کوششوں کہ نتیجے میں دنیا کہ نقشے پر ابھرگیا۔ پاکستان زندہ باد کے نعروں کی صداؤں سے نا جانے کتنے لوگوں کے دل خوشی سے پھٹ گئے ہونگے۔ وہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کیلئے زندہ تھے۔انکے لئے اس نعرے کی اہمیت کسی کلمے سے کم نہیں تھی۔
پاکستان ایک سیاسی جماعت کی مرہونِ منت وجود میں آیا۔ اس جماعت نے اپنی ساری توانیاں پاکستان کو بنانے میں پھر اس کو سنوارنے میں لگائے رکھیں۔ پاکستان بننے کہ کچھ عرصے بعد دوسری سیاسی جماعتوں نے جنم لینا شروع کیا پھر سیاسی جماعتوں کی دیکھا دیکھی مذہبی جماعتیں بھی منظرِ عام پر آنا شروع ہوگئیں۔ پھر تحریکِ پاکستان کی قیادت کو انتخابات کہ عمل سے گزرنا پڑا یقیناً وہ لوگ جمہوریت کی خاطر یہ سب برداشت یا سہہ گئے ہونگے۔ ان حقیقی تحریکی لوگوں کہ ساتھ کیا کچھ ہوا ہم اس کی گہرائی میں پھر کبھی چلے جائینگے ۔ پھر مارشل لاء لگائے گئے پھر جہموریت بحال ہوئی پھر مارشل لاء پھر جہموریت یہ آنکھ مچولی جاری و ساری ہے۔ ہمارے ملک میں فوجی حکومتوں کا دور حسبِ ضرورت ذرا زیادہ رہا جس سے یہ تاثر لیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک کا عام ذہنیت کا آدمی فوجی سوچ رکھتا ہے یعنی حکم چلانے کا شوقین یا عادی۔ اب ان ہی ذہنوں نے سیاست کی باگ دوڑ بھی سنبھال رکھی ہے۔
پاکستان تقریباً تین سو سے زیادہ سیاسی و مذہبی جماعتیں جھیل رہا ہے یا پال رہا ہے۔ یہ جماعتیں مختلف نظاموں کو بچانے کے لئے اور کچھ نیا نظام لانے کیلئے بر سرِ پیکار ہیں۔ کسی نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو کسی نے کوٹہ سسٹم ختم کروانے کی بات کی، کوئی نفاذ اسلام کا داعی بن گیا اور کوئی ملک میں انصاف کا بول بالا کرنے نکل کھڑا ہوا، کسی نے تعلیم کو ہتھیار بنانے کی باتیں کیں۔ مگر افسوس سیاست تو چل رہی ہے اور سیاست دان بھی مزے میں ہی ہیں عوام، عوام ہی ہوکر رہ گئی ہے۔ آجتک نا روٹی سہولت سے میسر آئی اور نا تن ڈھانپنے کو کپڑا، پانی، بجلی اور گیس آہستہ آہستہ ناپید ہوتی جارہی ہے۔ اتنے نظاموں میں سے نا تو کوئی نظام عوام کو کچھ دے سکا ہے اور نا ہی کسی نئے نظام سے کو ئی امید لگائے رکھی ہے۔
اگر واقعی یہ ساری سیاسی جماعتیں جن میں سے اکثریت تو اپنے رہنماؤں کے ناموں سے جانی جاتی ہیں، وطنِ عزیز پاکستان سے مخلص ہیں تو یہ تین سو کیوں ہیں؟ یہ تین یا چھ کیوں نہیں ہیں؟ یہ جماعتیں اپنے اندر جمہوریت نہیں رکھتیں تو ملک کو کیا جہموری طرز پر چلائینگی۔ اختلافِ رائے یا اختلافِ مزاج اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ہوا کرتے اس ملک کو آمرنہ سوچ سے آزاد کروانے کی ضرورت ہے۔ ہم ایٹمی طاقت ہیں اور باقاعدہ طور پر پوری دینا میں صرف اور صرف آٹھ ایٹمی ظاقتیں ہیں۔ دنیا اکیسویں صدی میں رہ رہی ہے اور کہاں سے کہاں جانے کے منصوبے بنا رہی ہے اور چلی بھی جا رہی ہے مگر ہم اختلافِ رائے پر پورے ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگاتے نہیں چوکتے ۔ ہر سیاسی جماعت ایک فرد کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ اگر سیاست نظریات کی ہوگی تو ملک آگے بڑھے گا ملک میں خوشحالی بھی آجائے گی۔
مجھے یہ لکھتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کے آج کہ اخبارات میں ڈی جی رینجرز کی جانب سے ایپیکس کمیٹی کے سامنے رکھے گئے کراچی کے وہ بنیادی مسائل ہیں جو سیاسی جماعتوں کو اٹھانے چاہیے تھے، آپکی ان مسائل کی جانب بروقت نشاندہی اور اقدامات قابلِ ستائش ہے۔ کراچی کا امن کافی حد تک بحال ہوچکا ہے اور اب ان ہی معاملات پر خصوصی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے، احساسِ محرومی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ آپکا نا صرف ایسا سوچنا بلکہ کہہ دینا یقیناً کراچی اور پاکستان کیلئے انتہائی خوش آئند ہیں۔ اب امید کی جاسکتی ہے کہ سیاسی حکمران ان تمام امور پر غور و حوض کرینگے اور جلد ہی کراچی والوں کو روشنیوں اور رونقوں کا شہر واپس مل جائے گا۔ کراچی کو اور کراچی والوں کو اب کھلی فضاء میں سانس لینے کا موقع ملنا چاہئے، گھٹن ذدہ ماحول سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے۔
ہمیں غلامی کی زنجیروں سے، ہمیں خوف ناک تقریروں سے، ہمیں آہ و فغاں اور نالوں سے آزادی چاہئے، ہمیں اناؤں کی بھینٹ چڑھانا بند کیا جائے۔ ہم بھی دنیا کے باقی انسانوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔ سیاسی آمروں کو اور حکم چلانے والوں کو یہ بات سمجھ آجانی چاہئے کہ مفاہمت کی پالیسی پر ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے ۔اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کے آمریت سے تو نجات ملتی رہی ہے اور مل ہی جاتی ہے مگر وطنِ عزیز کو سیاسی آمروں سے کب نجات ملے گی۔ ہم بھی اکیسویں صدی میں جانا چاہتے اور وہیں جینا چاہتے ہیں۔
تحریر: شیخ خالد زاہد