تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
اسلام نے عام خواتین اور حقوق الزوجین کے بارے میں قرآن و حدیث کے ذریعے اصول مقرر کر دیے ہیں اور ان قواعد و ضوابط کو اسوہ رسول ۖکے ذریعے ثابت بھی کیا ہے۔ ان پر من و عن عمل درآمدنہ کر سکنے پراب روٹھی ہوئی عورت کی طرح شریفوں کی حکومت سو حیلے بہانے کر رہی ہے۔ تحفظ حقوق نسواں بل اور پھر خصوصاً پنجاب اسمبلی سے جلد ازجلد پاس کروا کر مرکزی و صوبائی حکومت نے اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کر دیے ہیں۔
در اصل بے وقت کی راگنی اسلیے چھیڑی گئی ہے کہ غریب اور پسے ہوئے طبقات کے افرادبیروزگاری، مہنگائی، دہشت گردی، لاقانونیت، بے انصافی کی وجہ سے اب تنگ آمدبجنگ آمد کی طرح بپھر کر جلسے جلوس پراتر چکے ہیں ۔ اور ان کی حکومت ممتاز قادری شہید کی اچانک موت کے بعداب زندہ درگور ہونے کے قریب ہے۔اب ڈوبتے ہوئے کو تنکے کا سہارا کی طرح اللہ اکبر اور محمدرسول اللہ ۖکے نعرے لگاتی ہوئی قوم کی تحریک کوروکنے کے لیے حیلے بہانے تلاش کیے جارہے ہیں۔
اسلام کے معاشرتی نظام اور پاکستان کی دینی اقدارکو جس حکمران نے چھیڑاوہی یا تو بے موت مرا۔یااپنے سیاسی کنواں میں ایسا گراکہ پھر باہر نہ نکل سکا۔گھروں میں خانہ جنگی شروع کروانے کی یہ مذموم کوشش ہی ہے۔ بلکہ پولیس کے ذریعے اپنے خاوند کوکنگن پہنوا کربیوی کی جو درگت بعد میں بنے گی۔اس کے ذمہ دران شریفان ،عمران ،زرداری اور الطاف ہی ہوں گے۔عقل کے اندھوں کو کوئی یہ پوچھے کہ جب تین روز خاوند گھر بدر رہے گاتو ان دنوں میں بچوں اور خاتون خانہ کو دانہ پانی اور کھانا کہاں سے ملے گا۔اوربغیر مرد کے گھرکی دہلیز کے اندر اور باہرکیا حفاظتی اقدامات ہوں گے۔
تحفظ کون فراہم کرے گا۔اور اگر کسی شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوئیں تو ان کا کیا بنے گا۔ہمارے معاشرہ میں توغریب جورو دعائیں کرتی تھک جاتی ہے کہ کب بچوں کا ابو آئے گاتو ہنڈیا چڑھے گی ۔کہ ہمارے ملک کے 72فیصد سے زائد لوگ تو2وقت کی جان نویں کو ترستے رہتے ہیں۔جبکہ وہ غربت کی لکیر سے نیچے جاچکے ہیں ۔دراصل معاشرتی ماحول کو دیکھا جائے تو کسی”بیوی”کا کوئی گلہ شکوہ خاوند سے نہ ہے یہ تو اونچے طبقات کی “بیگمات”کے نخرے ہیں۔
امیر زادیوں اور جاگیرداروں ،وڈیروں نو دولتیے سود خور صنعتکاروںاور لٹیرے سرمایہ دارو ں کی راکھیل خواتین کے مطالبے لگتے ہیں و گرنہ کسی مسلمان عورت نے اسلام کی طرف سے دیے گئے حقو ق کے علاوہ کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا۔یہ بیرونی ممالک کا ایجنڈااور انہی کے پلان کا حصہ لگتا ہے۔ہمیں یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہوکمانڈو جرنیل نے پہلے ججوں کو چھیڑاتو اپنی سیاسی قبر کھو د ڈالی۔پھر لال مسجد پر ظلم و بر بریت کے پہاڑ توڑے تو اپنے کفن دفن کا انتظام مکمل کرلیا۔ضیاء الحق نے مذہب کوبطور اقتداری ہتھیار استعمال کیاتو ہوا میں بھسم ہو گیا۔شراب و کبا ب کے رسیا یحییٰ خان اوراقتدار کے لالچی بھٹونے مل کرملک کو دو لخت کیا۔
دونوں کی موت عبرت ناک ہوئی۔ایوب خاں بھی خاندانی منصوبہ بندی کی نظر ہوکر اقتدار سے محروم ہوا۔اسی طرح شریفوں نے متنازعہ بل کوجوکہ ہر طرح غیر اسلامی بھی ہے اور غیر آئینی بھی۔اپنی سیاسی قبر کھودی ہے اور اب غازی ممتاز قادری شہیدکی پھانسی کے لیے پھرتیاں چالاکیاں دکھلا کربیرونی آقائوں کی آنکھ کا اشارہ تو پورا کر لیا ہے مگر بے گور و کفن اپنے سیاسی کفن دفن کا انتظام بھی کر لیا ہے۔ مگر اب شاید سیاسی قبر کے لیے پاک سر زمیں پر جگہ نہ مل سکے۔اور مودی جیسے نئے دوست کے پاس بھاگ کر جانا پڑے۔کہ سعودیوں کے احسانات کا بدلہ تو کیا چکاتے منہ رکھنے کے لیے ہی کچھ امداد کر ڈالتے تاکہ ہینگ لگتانہ پھٹکڑی۔اور رنگ چو کھا آجاتامگر ان کے سیاسی مشیرغالباًقبروں کے مجاوروں کی طرح بھنگ پئے ہوئے ہیں۔اور ہوش و عقل ان کے قریب سے بھی نہیں پھٹکتی رہی۔
میر کیا سادے ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔جو سیاسی قبر کھو دنے پر تعینات ہیں۔انھی سے اپنی خود سے لگائی ہوئی بیماری”سیاسی کینسر”کی دوا مانگ رہے ہیں۔خادم اعلیٰ تو تھے ہی مگر امریکن محبت میں غلام اعلیٰ بننے پر فخر محسوس کر رہے ہیں ۔اور عمران کے تو کیا کہنے وہ بھی نیب سے اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے شریفوں کی پچ پر کھیلنے کو تیار ہے۔اور جو ادھر سے راندہ درگاہ ہو جاتے ہیں۔
حرام مال کی خوراک مکمل کر لیتے ہیں انھیں اپنی پارٹی میں شامل کرڈالنا فرض عین سمجھتے ہیں ۔عمران کا ورکر خصوصاً نو جوان مایوس ہو تا جارہا ہے۔کہ آسمان سے گرے اور کھجور میں اٹکے کی طرح ن لیگ چھوڑی اور نئے پاکستان کا جھنڈا اٹھایا پھر بھی انہی ظالم کرپٹ زانی شرابی جاگیرداروں،نودولتیے سود خور صنعتکار سرمایہ داروں کی غلامی میں انھیں دکھیلا جارہا ہے۔کروڑوں اربوں خرچ کرکے رنگیں اورنج بسیں اور گاڑیاںبھی اب اقتدار کو نہیں بچا سکتیں۔
بھوک سے بلکتے بچے غریب بچیاں،خواتین حتیٰ کہ خاندان کے سربراہ تک خود کشیاں کر رہے ہیں بھوکا شخص تو کفر کے قریب پہنچ جاتا ہے حکمران پتہ نہیں کن بھول بھلیوں اور رنگینیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔نیب کے خلاف ،شریفوں ،عمران ،الطاف ،زرداری کا نفرتوں کا اظہار دراصل 80ارب ڈالر کے مقروض ملک کے ساتھ ان کا بھیانک ظلم ہے۔یہ سبھی بھاگنے کی تیاریوں میں ہیںاور بھاگتے چور کی لنگوٹی بھی سہی کی طرح جو مزید چھینا جھپٹی کی جاسکے اس حرام مال پر بھی ہاتھ مارنے پر تلے ہوئے ہیںان کی سیاسی قبریں کھد چکیں خدا خیر کرے ان لٹیروں سے ملک بچ جائے۔کمانڈو جنرل کاقادری شہید کی موت پرسلمان تاثیرسے ہی ہمدردی کا اظہار کرنادراصل شرابی شرابی دایاراے ۔کسی مسلمان دا کوئی یا ر نہیں۔
کند ہم جنس بہ ہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز کی طرح جن سے رنگیں راتیں گزری ہوں انہی کی یاد آتی ہے۔مگرتوہین رسالت کرڈالنے یا کسی ایسے ملعون کی امداد کر ڈالنے سے اقتدار قائم نہیں رہ سکتا کہ خدا کی زمین کا اقتدار اسی ذات بے ہمتا کے کنٹرول میں ہے۔
یاد ہو گا کہ بہا ولنگری علی اکبر نے توہین رسالت کی تھی تو اسے بچانے والے،اس کی قربت کا دم بھرنے والے اس پر مقدمہ درج ہونے سے روکنے والے اس وقت کے وزیر اعلیٰ اقتدار سے نکل کر رہے کہ کسی مرتد و زندیق کی امداد کرنا بالآخر خدا کے قہر پر ہی منتج ہو تا ہے۔
کمانڈو جنرل بھی اپنی بنائی ہوئی لیگ کو نہ بچا سکااور انتخابات میں اس کی پروردہ لیگ کا سربراہ اپنی ضمانت تک ضبط کروا بیٹھا۔اور اب تو تا قیامت ایسے لوگ پھر کبھی مقتدر نہیں ہو سکتے ۔اور اب بھی موجودہ اقتداری جھولا جھولنے والوں کامقدرنشان عبرت بن کر رہ جائے گا۔اور قادری شہید کی روح تاقیامت ان کا پیچھا کرتی رہے گی ۔باقی رہے گا نام اللہ کا۔ اور اس کی رسالت کا مستقل چمکتا سورج۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری