تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل۔ گوجرانوالہ
کھیل بہت سے ہیں کچھ میدان میں کھیلے جانے والے اور کچھ سیاست کے میدان میں کھیلے جانے والے۔میں آج سیاسی کھیلوں کے بارے میں اپنی رائے لکھ رہا ہوں۔میرا خیال ہے بہت سے لوگ سیاسی کھیلوں کے بارے میں جانتے ہیں۔سیاسی کھیلوں کی بھی متعدد اقسام ہیں۔کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لئے اپنے اسٹیٹس کے لئے اپنے مقام کے لئے کھیلتے ہیں۔ اور کچھ اپنے ملک کے مفادات ملک کے اسٹیٹس اور ملک کے مقام کے لئے کھیلتے ہیں۔ موجودہ دور میں بلکہ ماضی میں بھی اپنے مفادات کے لئے ہی زیادہ کھلاڑی کھیلتے۔زمین پر جب سے انسان نے قدم رکھے ہیں تب سے ہی سیاسی چالبازیاں بھی شروع کر رکھی ہیں۔
بعض اوقات چالباز خود اپنی ہی چال کی گرفت میں جکڑا جاتا ہے اور بعض اوقات بازی لے جاتا ہے۔کھیل کے دو ہی پہلو ہوتے ہیں۔ہار یا جیت۔مگر سیاسی کھیل میں اتنی لچک ہوتی ہے کہ ہارنے والا کبھی اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا۔اور بعض اوقات اپنی شکست کو چھپانے یا بدلہ لینے کے لئے کسی بھی حد تک پہنچ جاتا ہے اور یہی حال جیت حاصل کرنے والوں کا بھی ان کی جیت میں کوئی بھی رکاوٹ ہو وہ اسے عبور کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جاتے ہیں۔یوں تو سیاسی کھیل ہر سطح پر کھیلا جاتا ہے۔نچلی درمیانی اور اوپر والی۔مگر یہ کھیل نچلی اور درمیانی سطح پر نچلا یعنی چھوٹا اور درمیانہ ہی ہوتا ہے۔یوں کہیے کہ نچلی سطح اور درمیانی سطح پر زیادہ گھنائونا نہیں ہوتا۔مگر نچلی سطح کے کھلاڑیوں کی مکاری پکڑی جائے تو انجام بہت برا ہوتا ہے۔نچلی سطح میں غریب اور درمیانی سطح میں مجھ جیسے درمیانے لوگ ہوتے ہیں۔اور اب بات کرتے ہیں اوپر والی سطح کی جو صدیوں سے ہی بہت شاطر ہے۔اس سطح کے کھلاڑی بہت منجھے ہوئے سیاسی چالباز ہوتے ہیں۔جن کے لئے شکست جیت اور کھیل میں خرابہ زیادہ پچھتاوے کا باعث نہیں بنتا کیوں کہ انہیں اگلی باری کی امید ہوتی ہے کہ جیت انہی کی ہوگی۔
اس سطح کے کھلاڑی کسی بھی قسم کے بدعنوانی کے کھیل میں پکڑے جائیں تو انجام تک نہیں پہنچتے۔یہ ہر میدان میں ہر رنگ میں دوبارہ اٹھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔مگر درمیانے اور نچلے طبقے کے کھلاڑی ایک دو کھیل کے بعد ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔اب اس اوپر والی سطح سے بھی اگلی سطح کے کھیل اور کھلاڑی بھی ہوتے ہیں۔یہ وہ کھلاڑی ہوتے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر کھیل کھیلتے ہیں۔یہ ملکی کھیل ہوتے ہیں۔اس کھیل کا بھی انجام ہوتا ہے۔ہار کی صورت میں بڑا ملکی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اوپر والی سطح پر ملکوں کو نقصان پہنچتا ہے کسی بھی اوپر والی سطح کے کھلاڑی کو کبھی نقصان نہیں پہنچا۔شاید ماضی میں ایسا ہوتا ہوکہ نقصان پہنچا ہو۔سرمایہ کار اور انٹیلی جینس ادارے انکے سپانسرز ہوتے ہیں۔ بیوروکریٹس تجزیہ کار اور بڑے صحافی انکے کوچ ہوتے ہیں۔یوں یہ سپانسرز اور کوچ بھی سطح کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔کھیل پر کچھ زیادہ ہی لکھ ڈالا اب اصل بات پر آتا ہوں۔دوستو پاکستان ان سب کھیلوں کی آڑ میں ہے چھوٹے و بڑے۔بین الاقوامی کھیل ملکی کھیل صوبائی کھیل اور اسی طرح ڈویژنل ضلعی سٹی اور یونین کونسل کی حد تک۔سب کھیل ملک کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی طاقتیں پاکستان میں عدم استحکام پھیلا کر پاکستان کی غم خوار بن کر پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتی ہیں۔جن میں امریکہ اور روس قابل زکر ہیں باقی چین کی نیت کو میں ابھی سمجھ نہیں پایا۔بھارت جو خود کو ایشیاء کا بادشاہ سمجھتا ہے۔اس کی اس خواہش میں چین اور پاکستان کھٹکتے ہیں۔چین میں بھارت مداخلت نہیں کر سکتا اور پاکستان میں غداری و بدامنی پھیلانے کے لئے اربوں کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔روپ کے عوض بھارت نے ہمارے کئی آس پاس کے ہمسائیوں کو خرید رکھا ہے۔اب ملکی سیاسی کھیل وزیر اعظم کی کرسی اور وفاق کی تمام کرسیوں کا کھیل ہے۔اس کھیل کے لئے کوئی بھی کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ملکی ترجیحات کی تمام ٹیمیں صرف باتیں ہی کرتی ہیں لیکن حقیقت میں سب کے لئے اپنی ترجیحات اور اپنے مفاد ہی اہم ہیں۔یہ کھیل دن بدن گھنائونا ہوتا جا رہا ہے۔ملک عین وقت بین الاقوامی سازشوں کی زد میں ہے اور یہاں وفاق کو اپنی برتری کی اور اپوزیشنز کو اپنی برتری کی پڑی ہوئی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کون کتنا بڑا اور بہتر ہے وہ الگ بات ہے کہ ہم لوگ میسنے ہو گئے ہیں۔اسی طرح صوبوں ڈویژنوں سٹی اور یونین لیول تک کھیل کھیلا جا رہا ہے ذاتی مفاد اور ذاتی برتری کا۔ہاں کھیل ضرور کھیلیں مگر صاف ستھرا اصولوں والا۔آپ سب جانتے ہیں کہ ہر کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔اور کھلاڑیوں کو اصولوں کا پابند ہونا پڑتا ہے۔اور جو کھلاڑی یا ٹیم پابند نہیں ہوتی انہیں پابندیوں کا سامنہ کرنا پڑتا ہے جرمانہ اور متعدد سزائوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مگر ہمارے پابندیاں لگانے والے بھی اسی بد اصول کھیل کی گرفت میں ہیں۔دوستو صدق دل سے اپنے آس پاس کے سیاسی کھلاڑیوں پر ایک نظر دوڑائو ۔کیا وہ سیاسی کھیل کے اصولوں پر پابند ہیں؟یا وہ سزا کے اہل ہیں؟اور انہیں سزا کون دلائے گا؟جہاں تک میرا خیال ہے کوئی بھی کھلاڑی اور ٹیم ایسی نہیں جو اصولوں کی پابند ہو۔البتہ دو یا تین فیصد کھلاڑی کچھ اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔ماضی میں بھی یوں اصولوں سے انکاری کھلاڑیوں اور ٹیموں کی کمی نہ تھی۔یہ سلسلہ بڑی دیر سے چلتا آرہا ہے۔
ملک پاکستان ہر سطح پر سیاسی مفادات کے کھیلوں میں جکڑا ہوا ہے۔مگر اس کے باوجود بھی اللہ تعالی کی ذات نے اس وطن کو مستحکم رکھا ہوا ہے۔خدارا میرے وطن کے سیاسی کھلاڑیو !اپنے مفادات کے کھیل میں ملک میں افراتفری و بدامنی نہ پھیلائو۔اس کو اپنا حقیقی وطن سمجھو۔تمام اقتتدار اور کرسی کی باتیں مل بیٹھ کر حل کرو۔لوگوں کی ملک پاکستان کی زندگی اجیرن نہ بنائو۔کارکنوں کو یوں شب روز استعمال نہ کرو ۔اگر ایسے ہی اندرونی شازشوں اور مفادات میں لگے رہے تو دشمن ممالک کو پاکستان کو کھوکھلا کرنے کا موقع مل جائے گا۔اس پاکستان میں اتنی دیر تک کوئی انقلاب کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک نچلی سطح تک انصاف تعلیم صحت اورتمام اختیارات فراہم نہیں ہوتے۔تب ہوگی تبدیلی جب جاگیردار اور بزنس مین کے بیٹے کی بجائے ایک غریب مسکین کا پڑھا لکھا بیٹا حاکم ہوگا۔سب مل کر ملکی سلامتی اورملکی مضبوطی کا کھیل کھیلو دنیا و آخرت میں سرخرو ہو جائو گے۔پہلے اندرونی مسائل و سازشوںکا فوری خاتمہ وطن کی ضرورت ہے پھر ہی پاکستان غیر ملکی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے قابل ہوگا۔ہمیں وقت کو سمجھنا ہوگا۔اور سیاسی کھیل میں اصولوں کو اپنانا ہوگا۔تبھی کامیابی حاصل ہوگی۔
تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل۔ گوجرانوالہ