قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کے سیاسی منظرنامے پر نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں بہت ساری مذہبی جماعتیں دیکھنے کو ملیں گی، مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ مذہبی پس منظر رکھنے والی سیاسی جماعتیں کبھی برسر اقتدار نہیں آئیں۔ پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے، مسلمان اسلام سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
اگر جذباتی وابستگی، فکری وابستگی سے محروم ہو تو بامقصد نتائج کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والے ملک کی عوام نے ہمیشہ اپنے لیے ایسی قیادت کا انتخاب کیا جس کا مذہبی رجحان کم ہو، یا جس کی کسی مسلک اور عقیدے سے وابستگی ظاہر نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ ایک عام پاکستانی کیسا اسلامی نظام چاہتا ہے؟
اسلامی حکومت کے بارے میں ایک عام شہری سے بات کی جائے تو اس کے ذہن میں خلافت راشدہ کا دور ابھرتا ہے۔ اس کے ذہن میں وہ حکمران آتا ہے جس سے ایک عام شہری بھی جواب طلب کرسکتا تھا کہ یہ دوسری چادر تمہارے پاس کہاں سے آئی اور مال میں یہ اضافہ کیوں ہوا ہے؟ اس دور میں قاضی کی عدالت میں ایک حکمران کا بھی وہی مقام تھا جو ایک غریب شہری کا تھا اور دونوں برابر تھے۔ قانون دونوں پر یکساں طور پر لاگو کیا جاتا تھا۔
مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں ہر دور میں آنے والی حکمران جماعت نے ہمیشہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھا۔ اگر ہم 2002 کے الیکشن کی بات کریں جس کے نتائج بہت ہی حیرت انگیز تھے، تو معلوم ہوگا کہ 2002 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے غیرمعمولی کارکردگی کامظاہرہ کیا اور ایک بڑی پارلیمانی جماعت بن کر ابھری۔ ایم ایم اے نے، جس میں چھ مذہبی و سیاسی جماعتیں شامل تھیں، مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے بعد تیسری پوزیشن حاصل کی اور کے پی کے میں صوبائی حکومت بنالی جبکہ بلوچستان میں مخلوط صوبائی حکومت کا حصہ بنی۔
ایک لمبے عرصے کے بعد دینی جماعتوں کو اقتدار میں براہ راست آنے کا موقعہ ملا۔ یہ ایک لحاظ سے بڑی کامیابی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت مذہبی جماعتوں کی اس شاندار کامیابی کی وجہ کیا تھی؟ انہیں کیوں اور کیسے حکومت ملی؟ نتائج کیا رہے اور کیا آئندہ ایسا ممکن ہے؟ اس کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کی ملکی تاریخ میں پہلی بار تمام مسالک کی جماعتیں اکٹھی ہوئیں اور ایک ساتھ ووٹرز کے پاس گئیں۔ بہت سے لوگوں نے انہیں آزمانے کےلیے بھی ووٹ دیئے، خاص طور پر خیبر پختونخواہ کے ووٹرز نے اپنا ووٹ مولوی صاحبان کی جھولی میں ڈال دیا۔
خیبر پختونخواہ میں پانچ برس تک مذہبی جماعتیں بلا شرکت غیرے حکومت کرتی رہیں اور جے یوآئی (ف) کے اکرم درانی وزیراعلیٰ بنے۔ حکومت میں غالب حصہ بھی اسی جماعت کا تھا، مگر صد افسوس! ایم ایم اے کی پانچ سالہ کارکردگی کہیں سے بھی مثالی نہیں کہی جاسکتی۔ کرپشن کے بہت سے الزامات بھی صوبائی وزراء پر، بالخصوص جے یو آئی (ف) کے رہنماﺅں پر عائد کئے گئے۔ اس خاص موقعے پر ایم ایم اے کا کردار نہایت مایوس کن رہا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ نہ تو عوام یہ چاہتے ہیں کہ مذہبی جماعتیں اقتدار میں آئیں اور نہ ہی مذہبی جماعتیں اقتدار میں آنے کےلیے سنجیدہ ہیں۔ ایسی صورت حال میں صرف نام ہی کا اسلامی جمہوریہ پاکستان رہے گا۔ پاکستان کی خاطر تمام مذہبی جماعتوں کو ایک پیج پر آنا ہوگا اور عوام کے سامنے اپنا مثبت کردار ادا کرکے ایماندار اور سنجیدہ قیادت ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ امید کرتا ہوں کہ 2018 کا الیکشن پاکستان کےلیے مثبت ثابت ہو۔