تحریر: شاہ بانو میر
خدا خدا کر کے لاہور کے ضمنی الیکشن مکمل ہوئے ہار ایک ووٹ سے ہو یا کچھ ہزار سے ایاز صادق کو اللہ نے ایک بار پھر عزت سے نوازا ہے اور وہ بڑی شان سے واپس اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھیں گے اسپیکر نیشنل اسمبلی وہی بنیں گے سارے وقت میں ایک ادارے کو مسلسل تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا رہا الیکشن کمیشن یہی وجہ تھی کہ میری ذاتی توجہ الیکشن کمیشن پر مرکوز رہی کہ مجھے کہیں وہ کسی ایک طرف جانبداری کے ساتھ جھکاؤ کرتے دکھائی دیں لیکن آفرین ہے سربراہ ادارے کے اغراض و مقاصد کو جانتا ہو تو وہ نیچے مشیروں کو بہترین انداز میں کنٹرول کر لیتا ہے۔
یہی کچھ دکھائی دیا کہ کوئی منجھا ہوا سربراہ ہے جس نے کہی بال برابر مداخلت نہیں کی یہی ایک غیر جانبدار منصف کا کام ہے مشیر بہت ہوشیاریاں دکھاتے ہیں لیکن اگر ادارے کا سربراہ اس شعبے کا اہل ہو تووہ جڑ سے فتنہ ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے پاکستان کا الیکشن کمیشن بار بار الزامات کی زد میں ہے ان لوگوں کی زبانیں بار بار بہتان لگاتی ہیں جو خود اپنے اداروں میں نااہل لوگوں کو بھرتی کر کے انصاف اور منصفی کا مستقل جنازہ نکالتے ہیں۔
لاہور میں کروڑوں خرچ کرنے والے کارکن کو کھڑا کر کے پارٹی کے نوجوانوں کی بڑی تعداد سے ناراضگی مول لی گئی یہی وجہ ہے کہ نظریاتی کارکنان نے ووٹ نہیں ڈالے یہ تصدیق شدہ حقیقت ہے مگر الیکشن کمیشن نے اپنی مکمل ذمہ داری کا احسن انداز میں نبھا کر الیکشن کروا دیئے۔
الیکشن کا غیرمتوقع نتیجہ پارٹی سربراہ کو باور کروا گیا کہ روٹھے ہوئے نوجوانوں کو واپس لا کر ان کو انکی اصل جگہہ دینی ہوگی جو ان سے چھین کر دیگر پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگوں میں بانٹ دی گئی 2018 تک یہ ٹیم الیکشن کمیشن سمیت کسی پر ناکامی کا الزام نہ لگائے الیکشن کمیشن کی کارکردگی مثالی ہے جو جو تکرار کی گئی اسکو کسی انوکھے لاڈلے کی فرمائش کے طور پے مان لیا گیا لیکن نتیجہ جلد بازی کا بالعموم جو ہوتا ہے وہی نکلا اب ذرا سکون لینا چاہیے اور پارٹی کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کو سنوارنا اس وقت سب سے اہم بات ہے پارٹی میں کئی خوش آمدی کئی چھوٹے آچکے جن کے پاس منفی سوچ اور منفی طریقہ کار ہے وہ سرعام پارٹی قوانین کا مذاق اڑاتے ہیں اور جب اس طرف نشاندہی کی جاتی ہے تو اک طرزَ تغافل جو ان کو مبارک ہو۔
ملک کا الیکشن کمیشن غیر جانبدار ہے لیکن اک زرا انصاف کے مختلف شعبوں کی اپنی کارکردگی کو بھی اب ملاحذہ کرنا ازحد ضروری ہے اگر 2018 میں کامیابی چاہیے تو اور خطرے کا نشان ہے جن نظریاتی لوگوں نے موجودہ امیدوار کو تسلیم کرنے اور ووٹ دینے سے انکار کیا؟ یہ جرآت یہ بے باکی ان خستہ حال نوجوانوں نے یہاں سے ہی سیکھی ہے مگر افسوس دوسروں کو جگا کر رہنما خود نجانے کن بھول بھلیوں میں کھو گیا الیکشن کمیشن پر اب مزید الزام تراشی دراصل ان کی انا کی شکستگی کی دلیل ہے جیتنے والے بے شک مکاری کر رہے ہیں عیاری کر رہے ہیں کچھ بھی کر رہے ہیں۔
لیکنسو فیصد درست بات ہے کہ جیتنے پر ان کا رویہ معاندانہ ہے معتدلانہ ہے جبکہ اس طرف اگر جیت ہوتی تو ؟؟؟؟؟ قومی اسمبلی ایک بار پھر منتظر ہے اس جیتنے والے خوش نصیب کی جس کو اپنی دانست میں کچھ لوگ سیاسی طور پے ختم کر چکے تھے کبھی مت بھولئے ذلت اور عزت آپ کے یا کسی اور کے ہاتھ میں نہیں ہے صرف اللہ کے ہاتھ ہے لہٍذا براہ کرم شکست کو کامیابی میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کا آغاز کریں اور الیکشن کمیشن کی شفاف کارکردگی کو سوالیہ نسشانہ نہ بنائیں کیونکہ خود آپ کے منصف مشکوک منصفی کے ثبوت سرعام رکھتے ہیں اداروں پر یقین مضبوط پاکستان پر یقین ہے۔
تحریر: شاہ بانو میر