اسلام آباد(ایس ایم حسنین) اپوزیشن کے سخت گیر موقف رکھنے والے راہنمائوں کی طرف سے خفیہ ملاقاتوں کی خبریں سامنے آنے کے بعد نہ صرف مسلم لیگ کے حامیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے بلکہ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں بھی شکوک وشبہات تیزی سے جنم لے رہے ہین۔
اگر ماضی پرنگاہ دوڑائیں تو اپوزیشن کی چھوٹی جماعتوں نے دھرنے کے دوران یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان کے ساتھ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے دھوکہ دہی کرتے ہوئے دھرنے اور لانگ مارچ میں واجبی انٹری دی ہے جبکہ مولانا عبدالغفور حیدری کا بیان سامنے آنے کے بعد یہ تو واضح ہوگیا ہے کہ یہ لانگ مارچ اور دھرنا صرف اور صرف نواز شریف کو باہر بھجوانے کیلئے دیا گیا اور لوگوں کو دھوکے میں رکھ کر یہ تحریک چلائی گئی۔ اس کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہ خفیہ ملاقاتیں دراصل اہم قومی امور کیلئے تھیں مگر اپوزیشن کے راہنمائوں نے موقع پرستی کا مظاہرہ کر کے مالش اور پالش کیلئے ان ملاقاتوں کا خوب استعمال کیا اس کے ساتھ ہی حکومت وقت نے بھی روایات کے برعکس ان ملاقاتوں کو خفیہ رکھنے کے وعدے پر عمل نہیں کیا اور وقتی فائدے کیلئےاپنی سیاسی چالیں چل دیں۔
تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دان ایک دوسرے کے بارے میں جو بیانات دے رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں کس قدر جمہوریت ہے۔ کس قدر آئینی دائرہ کار کے اندر رہ کر کام کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری سیاست ایک خاص مقصد کے تحت ہوتی ہے۔ چاہے اس میں سیاست دان ہوں یا اسٹیبلشمنٹ۔
انہوں نے کہا کہ اب جس طرح یہ خفیہ باتیں سامنے آ رہی ہیں، اس سے ہمارا جمہوری اور آئینی چہرہ مجروح ہوا ہے۔
سلمان عابد کا مزید کہنا تھا کہ یہ کسی کی جیت یا ہار نہیں، بلکہ اس کا نقصان ریاست، سیاست اور جمہوریت کو ہو رہا ہے۔
اس تمام صورتِ حال میں کس چیز کا نقصان سب سے زیادہ ہو رہا ہے؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے سابق وزیرِ اطلاعات و نشریات اور سینیٹر جاوید جبار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں سب سے بڑا نقصان اخلاقیات کا ہو رہا ہے۔
ان کے بقول رہنماؤں کے درمیان گفتگو کا معیار قائم رہنا چاہیے تا کہ نوجوان نسل کو سیاست میں دلچسپی ہو۔ نئی نسل کے ذہن میں سیاسی رہنماؤں اور باقی سب کے لیے مثبت تاثر ہو کہ سیاست کی قدریں کیا ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سیاسی رہنما نوجوانوں کو مایوس کر رہے ہیں اور اس طرح انہیں سیاست میں آنے سے روک رہے ہیں۔ لہذا اختلافات اور کشیدگی کو روکنا بہت ضروری ہے۔
اس سوال پر کہ کیا اس کشیدگی کے خاتمے کے لیے سب کو اپنے آئینی دائرہ میں کام نہیں کرنا چاہیے؟ جاوید جبار کا کہنا تھا کہ دائرہ میں رہنا بعض دفعہ مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی مشکلات رہی ہیں اور سول انتظامیہ اور ملٹری کے درمیان کشیدگی رہی ہے۔ لیکن یہ بہانہ نہیں بن سکتا کہ اس میں ایک دوسرے کے خلاف اس طرح بولا جائے۔
ان کے بقول یہی تو اصل معاملہ ہے کہ دباؤ کے باوجود ایسے ماحول سے بچنا ہی اصل سیاست ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب کو اخلاقیات اور اپنی قدروں کو سامنے رکھنا ہو گا تاکہ ہم اپنی آئندہ نسل کو بہتر جمہوریت دے سکیں۔
آرمی چیف اور ڈی جی ایس آئی سے پارلیمانی رہنماؤں کی ملاقات میں ن لیگ کی قیادت سے کیا بات ہوئی؟خواجہ آصف اور شہباز شریف سے آرمی چیف نے کیا کہا ، کن سیاسی معاملات پر بات ہوئی اور وزیر اعظم کی غیر حاضری سے متعلق کیا سوالات اٹھائے گئے؟دیکھئے خواجہ آصف کا موقف pic.twitter.com/HO6lJBgpyL — Shahzeb Khanzada (@shazbkhanzdaGEO) September 22, 2020
اجلاس کے طے شدہ اصول کے مطابق گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق منعقدہ اس اجلاس کو عام نہیں کیا جانا تھا۔ اس کے باوجود اجلاس کی بازگشت ٹی وی چینلز پر موضوعِ بحث بنی رہی۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن کہتی ہیں کہ یہ اجلاس گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے حوالے سے بلایا گیا تھا تاہم حکومتی وزرا نے بند کمرہ اجلاس کو موضوع بحث بنا کر نئی روایت قائم کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اجلاس میں گلگت بلتستان کو صوبے کا عارضی درجہ دینے اور اس کے آئندہ انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے بات کی تھی۔ اجلاس میں کیا بات ہوئی؟
حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے سیاسی رہنماؤں پر مقدمات اور فوج کی سیاست میں مداخلت پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔
اجلاس کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملات میں فوج کا عمل دخل نہیں ہے اور یہ کام سیاست دانوں کو کرنا ہے۔ دفاعی ادارے کو سیاست میں ملوث نہ کیا جائے۔
آرمی چیف کے بقول فوج کا ملک میں کسی بھی سیاسی عمل سے براہِ راست یا بالواسطہ عمل دخل نہیں ہے۔
فوج کے سربراہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔
قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف، احسن اقبال، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شیری رحمٰن، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر ہوتی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود سمیت بعض حکومتی وزرا بھی اجلاس میں شریک تھے۔
وفاقی وزیر شیخ رشید نے اس اجلاس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اجلاس میں آرمی چیف نے کہا تھا کہ فوج کو ملکی سلامتی اور جمہوریت عزیز ہے اور آرمی ہر منتخب حکومت کے حکم کی پابند ہے۔
شیخ رشید کے بقول آرمی چیف نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کی تقرری حکومت و اپوزیشن نے اتفاق رائے سے کی ہے اور انتخابی اصلاحات بھی سیاست دانوں کو کرنا ہیں، تو فوج وہی کردار ادا کرے گی جس کا کہا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جنرل قمر باجوہ نے سیاست دانوں پر احتساب کے نام پر گرفتاریوں اور مقدمات کے حوالے سے کہا کہ نیب کے چیئرمین کا تقرر سیاست دانوں نے کیا تھا۔
پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کی فوج کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کے بارے میں بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ ان بیانات سے ملک کے سیاسی ماحول میں تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔
اب جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی ف) کے رہنما سینیٹر عبدالغفور حیدری کا انٹرویو سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان سے کہا تھا کہ وہ نواز شریف کے خلاف جو کچھ کر رہے ہیں اس پر جے یو آئی کے رہنما مداخلت نہ کریں۔
پاکستان فوج کی طرف سے اس معاملے پر تاحال کوئی تردید یا وضاحت سامنے نہیں آئی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک دوسرے کے راز کھولنے سے سیاست دان اور فوج دونوں ہی بدنام ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان اخلاقیات کا ہو رہا ہے۔
خیال رہے کہ جے یو آئی کے سینیٹر عبدالغفور حیدری نے ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ ان کے آزادی مارچ کے موقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک ملاقات میں اصرار کیا کہ مولانا فضل الرحمٰن آزادی مارچ نہ کریں۔ اور وہ جو کچھ نواز شریف کے خلاف کر رہے ہیں اس میں بھی مداخلت نہ کریں۔
JUIF’s Maulana Abdul Ghafoor Haideri claims the army chief invited party leaders to meet and asked JUIF to call off its Azadi March: “Don’t interfere in what we are doing with Nawaz Sharif.” pic.twitter.com/T1wiweC03U
— Amber Rahim Shamsi (@AmberRShamsi) September 24, 2020
خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت نے گزشتہ برس اکتوبر کے آخر میں آزادی مارچ کیا تھا جس میں ان کی جماعت کے کارکن قافلوں کی صورت میں اسلام آباد پہنچے تھے اور اسلام آباد میں دو ہفتے تک دھرنا دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس مارچ کا خاتمہ ملک بھر میں دھرنے دینے کے اعلان کے ساتھ کیا گیا۔ تاہم ملک کے چند علاقوں میں دھرنوں کے بعد یہ تحریک ختم ہو گئی تھی۔ جے یو آئی نے اس مارچ میں مطالبہ کیا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان مستعفی ہوں، جب کہ ملک میں فوج کی نگرانی کے بغیر آزادانہ انتخابات کرائے جائیں۔
سینیٹر عبدالغفور حیدری کا یہ انٹرویو ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب سیاست دانوں کی فوجی حکام سے ملاقاتوں کے بارے میں روزانہ نت نئے انکشافات کیے جا رہے ہیں۔
Nawaz Sharif’s special emissary met Gen Bajwa early Sept with the message that N League had been pushed against the wall and it will take no more. He was bluntly told that the Imran govt will continue the same way. The meeting lasted for 2 hours. DG ISI also participated. https://t.co/iJpL3adcYO
— Syed Talat Hussain (@TalatHussain12) September 22, 2020
اسی طرح جب معروف صحافی طلعت حسین نے نواز شریف کے نمائندے کی آرمی چیف سے ملاقات کی خبر دی۔ تو مریم نواز نے ایسی کسی بھی ملاقات کی تردید کی۔ البتہ پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے اس بارے میں ٹی وی پر آ کر بتایا کہ سندھ کے سابق گورنر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے دو مرتبہ آرمی چیف سے ملاقات کی، جس میں نواز شریف اور مریم نواز کے بارے میں ہی گفتگو کی گئی۔