تحریر: حبیب اللہ سلفی
وزیر اعظم نواز شریف نے دورہ سعودی عرب کے دوران خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز، شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز، سعودی نائب ولی عہد اور وزیر داخلہ شہزادہ محمد نائف سے ملاقاتیں کیں اور یمن میں بغاوت کے مسئلہ پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔ ریاض میں ان کی ملاقات یمن کے منتخب صدر منصور ہادی سے بھی ہوئی۔سعودی عرب کے دورہ کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف،وزیر دفاع خواجہ محمد آصف ، ڈی جی ایم او میجر جنرل عامر ریاض ، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور سیکرٹری کارجہ اعزاز احمد چوہدری بھی ان کے ہمراہ تھے۔
وزیر اعظم نواز شریف عسکری قیادت کے ہمراہ جب ایئرپورٹ پر پہنچے تو سعودی نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف السعود اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان السعود نے ان کا بھرپور استقبال کیااور گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ بعدازاں وزیراعظم نواز شریف سعودی فرمانروا سے ملاقات کے لئے شاہی محل گئے جہاں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے محل کے مرکزی دروازے پرانہیں خوش آمدیدکہا۔اس دوران دونوں ملکوں کے سربراہان کے مابین ون آن ون ملاقات میں وزیر اعظم پاکستان نے انہیں یقین دہانی کروائی کہ یمن میں بغاوت اور سعودی سرحدوں کو درپیش خطرات کے مسئلہ پر پاکستان انہیں کسی صورت تنہا نہیں چھوڑے گا اور یہ کہ پاکستان خطہ میں امن کے قیام کیلئے مشترکہ تجاویز کا خیر مقدم کرتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے مابین وفود کی سطح پربھی مذاکرات ہوئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ دورہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
چند دن قبل سعودی عرب نے یمن میں باغیوں کے خلاف فضائی آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا لیکن اس سے اگل دن ہی حوثی باغیوں نے تعز شہرمیں ایک فوجی اڈے پر قبضہ کر لیا اور دوسرے شہروں میں بھی ایسی کوششیں کرتے ہوئے یمنی صدر منصور ہادی کی وفادار فورسز پر دھاوا بول دیاجس پر شدید جھڑپیں ہوئیں اور سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کو دوبارہ فضائی حملوں کا آغاز کرنا پڑا۔ اس دوران یمن کے دارالحکومت صنعا سے دو سو کلومیٹر دور جنوب میں واقع شہر ایب میں حوثیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایاگیا۔بعض اطراف سے یہ آوازیں بلند ہو رہی تھیں کہ حوثیوں سے مذاکرات کرنے چاہئیں اور مصالحت کے ذریعہ اس مسئلہ کا حل نکالنا چاہیے ۔اب حوثیوں کے تازہ حملوں سے ان کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہئیں اور انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ باغی کسی ڈھانچے میں فٹ نہیں ہوں گے۔ پاکستان میں آپریشن ضرب عضب کی طرح یمنی باغیوں کے خلاف بھی سخت کاروائیاں کرنا پڑیں گی۔ بہرحال ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ یمنی باغی جن کی تاریں بیرون ممالک سے ہلائی جارہی ہیں وہ اتنی آسانی سے باز نہیں آئیں گے ۔فیصلہ کن طوفان کے بعد آپریشن بحالی امید کا مقصدیمن میں امدادی کارروائیاں شروع کرنااور بحران کے سیاسی حل کیلئے کردار ادا کرنا تھامگریہ چیز حوثیوں کو ہضم نہیں ہو سکی اور انہوںنے موقع پا کر نئے سرے سے حملوں کا آغاز کر دیا۔
عرب اتحاد کے فیصلہ کن آپریشن کے دوران حوثیوں کے زیر قبضہ بیلسٹک اور دیگر میزائلوں کے ذخیروں کو تباہ کیا جاچکا ہے جس سے ان کی کمر ٹوٹ چکی اور وہ فی الحال سعودی عرب کیلئے کوئی بہت بڑا خطرہ کھڑاکرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے مگر ان کی بغاوت کومکمل طور پر کچلنا بہت ضروری ہے وگرنہ یمن میں کسی صورت امن قائم نہیں ہو گا۔ سعودی عرب نے جب فضائی حملے بند کرنے کا اعلان کیاتو اسی وقت کہاجارہا تھا کہ یہ جنگ بندی عارضی نوعیت کی ہو گی۔حوثی باغیوں کو ملنے والی بیرونی امداد کے باعث یہ معاملہ دن بدن گھمبیر ہوتا جارہا ہے اور بین الاقوامی مداخلت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔چند دن قبل سلامتی کونسل نے ایک قرارداد پاس کی جس میں کہا گیا کہ یمنی باغیوں کو اسلحہ کی ترسیل مکمل طور پر روکی جائے گی۔ یہ قرارداد بظاہر پاکستانی پارلیمنٹ میں پاس کردہ قرارداد سے بہتر اور سعودی عرب کے حق میں نظر آتی تھی لیکن اسی قرارداد کی آڑ میں امریکہ نے اپنا بحری بیڑہ یمن کے سمندر میں بھیج دیا ہے۔یہ بحری بیڑہ طیارہ بردار نئے جنگی جہازاور میزائلوں سے لیس ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بحری بیڑہ یمن کے پانیوں میں بھجوانے کا مقصد صنعاء میں جاری لڑائی کے وسعت اختیار کرنے کی صورت میں خطہ میں امریکی مفادات کا تحفظ اور ایران کے ان بحری جہازوں کو روکنا ہے جو حوثی باغیوں کو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ امریکی چاہے جو مرضی کہتے رہیں ان کی کسی بات کا بھروسہ نہیں کیاجاسکتا۔ اس بحری بیڑے کی یمن کے پانیوںمیں آمد یقینا بہت بڑی سازش کا پیش خیمہ ہے۔ امریکیوں کی یہاں موجودگی کسی طورخطرہ سے خالی نہیں ہے۔
امت مسلمہ کے روحانی مرکز کا گھیرائو کرنے کیلئے سب اسلام دشمن قوتیں ایک ہو چکی ہیں۔ روس سعودی عرب کا سخت مخالف ہے اور یمنی باغیوں کے خلاف آپریشن کی شدید مخالفت کررہا ہے مگر اس نے بھی سلامتی کونسل کی قرارداد کی مخالفت نہیں کی جس سے سارا منظر نامہ کھل کر واضح ہو رہا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی جوخود کو دنیا میں امن و امان کے قیام کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں ان کا کردار پاکستان اور افغانستان میں ساری مسلم دنیا دیکھ چکی ہے۔ امریکیوں نے پاکستان کا سٹریٹیجک اتحادی بن کر یہاں اپنے اڈے بنائے۔ افغانستان پرحملہ کیلئے ہماری فضائوں کو استعمال کیا گیا اور لاکھوں مسلمان شہید کر دیے گئے۔ بعد ازاں جب افغان مسلمانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں شکست سامنے نظرآئی تو اسی پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے نہتے پاکستانیوں کا خون بہایا گیا’ خود کش حملوں کو پروان چڑھایا گیا اور بھارتی فوج کو افغانستان لاکر بٹھا دیا گیا جو تخریب کاری کے مراکز میں اپنے ایجنٹوں کوتربیت دیکر سندھ، بلوچستان و دیگر علاقوں میںداخل کر رہا ہے اور دہشت گردی کی آگ بھڑکائی جارہی ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ امریکہ اگر یمن کے سمندر میں آکر بیٹھتا ہے تواس سے سعودی عرب کیلئے مزید خطرات پیداہوں گے۔ امریکیوں کو تو ابھی تک یہ بات ہی پریشان کئے ہوئے ہے کہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے حوثی باغیوں کی جانب سے یمن میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور حرمین شریفین پر قبضہ کی دھمکیوں کے بعد پاکستان سے مدد طلب کی ہے امریکیوں سے اپیل نہیں کی گئی۔
یہ اس کے لئے بہت بڑا دھچکا ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جس دن اذان کی آواز سن کر امریکی صدر اوبامہ کو تنہا چھوڑ دیا اور نماز کیلئے چلے گئے تھے اسی دن معلوم ہوتا تھا کہ اب پالیسیاں واضح طور پر تبدیل ہوں گی اور اللہ کے فضل و کرم سے ایساہی ہوا ہے۔ سعودی عرب نے ابھی تک بہت محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ عرب ملکوں کے آپس میں بہت اختلافات ہیں لیکن حوثی باغیوں کے خلاف آپریشن کیلئے سب اکٹھے ہیں اور وہ حقیقی طور پر بغاوت کے اس فتنہ کو سرزمین حرمین شریفین کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سب سعودی عرب کے قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اتحاد کو پوری مسلمہ کے اتحاد میں تبدیل کیا جائے۔ اس کیلئے یقینا پاکستان کلیدی کردار اداکرسکتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی زیر قیادت سول اور عسکری قیادت کے مشترکہ دورے کا مقصد سعودی عرب کا اعتماد بحال کرنا تھا کہ پاکستان سرزمین حرمین شریفین کے دفاع اور سلامتی کیلئے کمربستہ ہے۔محب وطن حلقے تو پارلیمنٹ کی قرارداد آنے کے بعد سے مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو سعودی عرب جانا چاہیے اور غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے سعودی قیادت کو غیر مشروط تعاون کا یقین دلانا چاہیے۔اب اگر انہوں نے سیاسی و عسکری قیادت کے ہمراہ اپنا یہ دورہ مکمل کیا ہے تو یہ خوش آئند امر ہے۔
ضرورت ا س بات کی ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو’ اور عرب اتحاد کو پورے عالم اسلام کے اتحاد میں بدل کر مسلمان ملک اپنا مشترکہ دفاعی نظام اور معاشی پالیسیاں تشکیل دیں۔اسی طرح اپنی عالمی عدالت انصاف بنائیں اور مسلم ملکوں کے آپس کے معاملات بھی قرآن و سنت کی بنیا دپرمل بیٹھ کر حل کئے جائیں۔اس سے بیرونی مداخلت کے سلسلے ختم ہوں گے اور مسلم ملک امن و امان کے گہوارے بن جائیں گے۔ہمیں عالمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جرأتمندانہ پالیسیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے کہ وہ انڈیا سے دوستی وتجارت کی باتیں چھوڑیں اورچین کی طرح عرب ممالک سے تجارت بڑھائیں۔ اس سے پاکستان ان شاء اللہ جلد عالم اسلام کے دفاعی مرکز کی طرح مضبوط معاشی قوت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرے گا اورکوئی پاکستان و سعودی عرب کی جانب سے میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا۔
تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005