ماہِ رمضان گذر گیا، عید بھی گذر گئی۔ گرمی کی شدت میں البتہ مزید اضافہ ہو گیا ہے، کہا جا رہا ہے کہ ٹمپریچر ابھی بڑھے گا، موسمیاتی اور سیاسی دونوں ٹمپریچر بڑھتے نظر آتے ہیں۔ایک صاحب سے پوچھا کہ اتنی زیادہ گرمی میں سیاسی ٹمپریچر کیسے بڑھ سکتا ہے، ایسے موسم میں تو لوگ ٹھنڈی جگہ سے باہر نہیں نکلتے، کہنے لگے آپ کا حافظہ بہت کمزور معلوم ہوتا ہے، شائد آپ بھول رہے ہیں کہ انیس سو ستتر میں بھی اتنی شدید گرمی پڑی تھی کہ لوگوں کی زبانیں باہر نکل نکل آتی تھیں، لیکن کیا اس میں سیاسی ٹمپریچر کم ہوا تھا۔جون1977ء میں بھٹو کے خلاف تحریک جوبن پر تھی، جولائی کی پانچ تاریخ شروع ہوتے ہی حکومت ختم ہو گئی۔ مزید کہنے لگے کہ سیاسی ٹمپریچرکا موسمیاتی ٹمپریچر سے اتنا تعلق نہیں ہوتا جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں بھول چکا ہوں کہ انیس سو ستتر میں موسمیاتی ٹمپریچر کتنا تھا، لیکن اس وقت کا سیاسی ٹمپریچر بیالیس سال گذرنے کے بعد بھی ذہن میں اسی طرح تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو۔
موجودہ سال کے قومی اقتصادی سروے (سرکاری) کے اہم نکات نوٹ کرنے شروع کئے تو دِل کیا کہ ائر کنڈیشنر کی کولنگ زیادہ کر دی جائے کہ پسینہ کی ایک لکیر گردن کے پچھلے حصہ سے نکل کر ریڑھ کی ہڈی میں جیسے گھس گئی ہو۔ اب تو سال پورا ہونے والا ہے، اگلی یا پچھلی حکومت کا ذکر عجیب سا لگتا ہے، جو کچا چٹھا سامنے ہے موجودہ حکومت کا ہی کیا دھرا ہے۔ دلدار پرویز بھٹی مرحوم کہا کرتے تھے کہ پچھلی حکومت بہت کام کی چیز ہوتی ہے، کیونکہ اپنی ناکامیاں اس کے کھاتے میں ڈالنے کے کام آتی ہے۔ انہیں مرحوم ہوئے بھی چوبیس پچیس سال ہو گئے ہیں، لیکن موجودہ حکومت کی وجہ سے وہ بار بار یاد آ جاتے ہیں۔گورننس کے گڈیا بیڈ ہونے کا کچھ اِس لئے نہیں کہہ سکتا کہ گورننس ہو گی تو پتہ چلے گا کہ اچھی ہے یا بری۔ جب سے موجودہ حکومت کو سلیکٹ کیا گیا ہے مَیں تو چراغ سے چراغ جلتے ہی دیکھ رہا ہوں۔ عمران خان نے پہلے ذاتی دوستوں کے چراغ جلائے جیسے نعیم الحق، زلفی بخاری، انیل مسرت، صاحبزادہ عامر جہانگیر وغیرہ۔ اب بہت سے چراغوں سے آگے چراغ جل رہے ہیں جیسے زرتاج گل کی بہن، نعیم الحق کا بھتیجا، زلفی بخاری کا کزن، خاتونِ اول کے پہلے خاوند سے بچے وغیرہ وغیرہ۔ چلیں خیرچراغوں کا ذکر تو ہوتا رہے گا، حکومت کا اپنا قومی اکنامک سروے کہتا ہے کہ مہنگائی بڑھ گئی اور قرضوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور یہ کہ حکومت اپنے تمام اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔
پچھلی نالائق حکومت کے دور میں اقتصادی کی ترقی کی شرح 5.8 فیصد تھی جو اب موجودہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تقریباً آدھی ہو کر 3.3 فیصد رہ گئی ہے۔ مہنگائی کی شرح سرکاری طور 9.1 فیصد بتائی گئی ہے، غیر سرکاری اعداد و شمار کسی بھی خاتون خانہ سے پوچھے جا سکتے ہیں، جس نے مہینہ بھر کا کچن چلانے کے لئے طرح طرح کے پاپڑ بیلنے ہوتے ہیں۔ قومی اقتصادی سروے بتا رہا ہے کہ صنعتی ترقی کا ہدف 7.6 فیصد سے کم ہو کر 1.4 فیصد ہو گیا ہے، جبکہ زرعی شعبہ میں ترقی 3.3 فیصد کی بجائے صرف 0.8 فیصد تک محدود رہی۔ سرکاری اکنامک سروے میں بہت سارے اعداد و شمار درج ہیں اور اعداد وشمار میں دلچسپی رکھنے والے سروے پڑھ کر خود دیکھ سکتے ہیں کہ صنعتی ترقی اور زراعت کے علاوہ خدمات (سروسز) ہول سیل، ریٹیل، ٹرانسپورٹ، معدنیات، جنگلات، لائیو سٹاک و ماہی گیری، مالیات اور انشورنس وغیرہ میں کتنی کتنی کمی آئی ہے یا کس کس شعبہ کا کتنا کتنا کباڑہ نکلا ہے۔
اتنی زیادہ گرمی اور پریشان کن معاشی حالات میں روشنی کی ایک کرن پاکستان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے میٹھے بیانات ہیں، شائد امریکیوں نے انہیں اسی بات کی تربیت دی ہے کہ کڑوی سے کڑوی گولی کو بھی میٹھے ریپر میں لپیٹ کر دینے سے لوگوں کو افاقہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے مشیر خزانہ صاحب فرماتے ہیں کہ بجٹ غریب دشمن نہیں معیشت دوست ہو گا۔ ویسے میرے دماغ میں یہ چیز نہیں گھس پا رہی ہے کہ غریب اور معیشت کا موازنہ کیسے کیا جاتا ہے اور یہ کیسا بجٹ ہے جو غریب کا دشمن نہیں ہے،بلکہ معیشت کا دوست ہے۔ مشیر خزانہ کی ایک اور میٹھی میٹھی گولی یہ ہے کہ غریبوں پر ٹیکس اور مہنگائی کا بوجھ نہیں پڑنے دیں گے۔ ویسے اگر شیخ صاحب یہ نہ بھی کہتے تو کوئی فرق نہ پڑتا کیوں کہ یہ سارا بوجھ زندہ لاشوں پر پڑنا ہے، یہ غریب بے چارے کہاں سے بیچ میں آ گئے۔ موجودہ حکومت کو ریوینیو کے اہداف حاصل کرنے میں جس ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا اندازہ حکومت کے مخالفین کو بھی نہیں تھا، جو حکومتیں پراپیگنڈا اور غیبی مدد سے بنتی ہیں ان کا ہوم ورک اور منصوبہ بندی کاخانہ خالی ہوتا ہے۔ سات آٹھ مہینے تو اسد عمر کی وجہ سے ضائع ہو گئے، جن کی بڑی بڑی باتیں سن کر لوگ انہیں دنیا کا سب سے بڑا معیشت دان سمجھنا شروع ہو گئے تھے، لیکن جب کرنے کا وقت آیا تو ایکسپوز ہو گئے۔ اس کے بعد مرتا نہ کیا کرتا کے مصداق امریکہ سے آئی ٹیم کے ہاتھ میں ملکی خزانہ کی چابی دینا پڑی۔ امریکہ ہمارا بہت بڑا مہربان ہے، ہم اس کے بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہتے ہیں، لیکن وہ خزانہ کے چابی بردار بھیجتا رہتا ہے، محمد شعیب سے لے کر شوکت عزیز یا حفیظ شیخ تک، پچھلے پچاس ساٹھ سال سے یہی کہانی بار بار دہرائی جا رہی ہے۔
بجٹ کا موقع ہے اس لئے معیشت اور خزانہ کا ذکر آگیا، لیکن بڑھتے ہوئے سیاسی ٹمپریچر میں یہ اتنا بے موقع بھی نہیں کہ جھلسا دینے والی تیز دھوپ میں اگر الاؤ بھی جلا دیا جائے تو جلنے، مرنے اور بھسم ہونے کے علاوہ کوئی اور امکان باقی نہیں رہتا۔ رمضان اور عید گذر چکے ہیں، ملک میں جاری سیاسی بے چینی اور حکومت کی نا اہلی حالات کو ابتری کی طرف لے جائے گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا معاملہ سنبھالنا اتنا آسان ثابت نہیں ہو گا جتنا حکومت اور ان کے خیر خواہ سمجھ رہے ہیں۔ جسٹس صاحب سے بھی زیادہ حملے ان کے مرحوم والد پر کئے جا رہے ہیں،جو تحریک پاکستان میں قائداعظمؒ کے انتہائی اہم اور قریبی ساتھی تھے اور جن کے انتقال کو تینتالیس برس گذر چکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ باتیں کہی جا رہی ہیں جو ستر بہتر سال کے بعد اچانک کہیں سے ایسے دریافت ہوئی ہیں جیسے موہنجوڈارو، ہڑپہ یا ٹیکسلا سے ہزاروں سال پرانے آثار قدیمہ دریافت ہوئے تھے۔ پتہ نہیں کون کون کہاں کہاں سے قاضی عیسیٰ کے بارے میں نئی نئی تحقیق کھدائی کرکے باہر نکال رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عدلیہ اور وکلاء میں ان کی عزت اور تکریم قائم ہے۔ اسی طرح پچھلے چند ہفتوں میں قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی وزیرستان میں حالات کسی درست سمت میں جاتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ میں پی ٹی ایم کا حامی نہیں ہوں اور نہ ہی ان کے ایجنڈے سے مجھے کوئی اتفاق ہے،لیکن اس مسئلہ کی ہینڈلنگ درست انداز میں ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
شمالی وزیرستان سے منتخب قومی اسمبلی کے ممبران قید میں ہیں اور خڑ قمر سانحہ کے بعد اس علاقہ میں دہشت گرد کارروائیوں کے اضافہ ہونے کی وجہ سے پاک فوج کے افسران، جوانوں اور سویلین شہادتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے،جو بہت پریشان کن بات ہے۔ میرے خیال میں پورا معاملہ مس ہینڈل ہو رہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں چھ سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور وفاق میں بھی ان کی حکومت کا ایک سال ہونے جا رہا ہے۔ پی ٹی ایم کے معاملہ کا سیاسی حل نکالنا پی ٹی آئی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بڑی ذمہ داری ہے، لیکن وہ راہ فرار اختیار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ میرا سوال ہے کہ جس صوبہ میں چھ سال سے حکومت ہے اس کا وزیراعلیٰ کہاں ہے، حکومت تما م متعلقہ سیاسی سٹیک ہولڈروں کے ساتھ بیٹھ کر معاملہ حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی، یا دوسرے تمام معاملات کی طرح یہاں بھی پی ٹی آئی ناکام اور بے بس ہے۔آج کل ملک میں عید کے بعد متوقع گرفتاریوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور اس ضمن میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق صدر آصف علی زرادری، حمزہ شہباز شریف اور پرویز خٹک وغیرہ کے نام بھی سننے میں آتے ہیں۔ میاں نواز شریف پہلے ہی پابند سلاسل ہیں، اگر مزید لیڈر گرفتار ہوئے تو ملک کے سیاسی ٹمپریچر میں بہت اضافہ ہو جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان کافی متحرک ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ میاں شہباز شریف وطن واپس آ چکے ہیں، میاں نواز شریف نے مریم نواز شریف کو عدلیہ کے لئے تحریک اور اے پی سی میں شریک ہونے کی ہدایات دے دی ہیں۔ عید کے بعد موسمیاتی اور سیاسی ٹمپریچر دونوں بڑھتے دکھائی دیتے ہیں اور حکومت میں معاملات کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں،کیونکہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ تپش کم کرنے کی بجائے سلگتے انگاروں پر پھونکیں مار رہے ہیں۔