تحریر: محمد شاہد محمود
لاہور میں حلقہ این اے 122 میں ضمنی انتخابات کے لئے میدان سج چکا ہے۔یہ الیکشن پاکستان کی تاریخ کا مہنگا ترین الیکشن بن رہا ہے۔سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور تحریک انصاف کے عبدالعلیم خان کے مابین مقابلہ کی فضا ہے۔ لاہور شہر کی ہر گلی ،کوچے میں بینرز ،اشتہارات،فلیکس لگے ہیں۔شاید کسی الیکشن میں پہلے اتنی تشہیر نہ کی گئی ہو۔الیکشن کمیشن نے حلقہ این اے 122 اور پی پی 147 میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے لئے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کاکام مکمل کر لیا ہے۔ ریجنل الیکشن کمشنر طاہر منصور خان کا کہنا ہے کہ این اے 122 اور پی پی 147 کے ضمنی انتخابات کے لئے بیلٹ پیپرزکی چھپائی کا کام فوج کی نگرانی میں مکمل کرنے کے بعد ریٹرننگ افسر شیخ زاہداقبال کے حوالے کردئیے گئے۔ این اے 122 کے لئے 3 لاکھ 47 ہزار 762 بیلٹ پیپرز اور پی پی 147 کے 1لاکھ 40 ہزار 767بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں۔
یہ بیلٹ پیپرز 10 اکتوبر کو پریزائیڈنگ افسران کے حوالے کردیے جائیں گے۔11 اکتوبر کو لاہور کے حلقہ این اے 122اورپی پی147میں ہونیوالے ضمنی انتخابات میں مجموعی طور پر 3 لاکھ 47762 ووٹرزاپنا حق رائے دہی استعمال کرینگے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کی گئی پولنگ سکیم کے مطابق ان میں مردووٹرز کی تعدادایک لاکھ 90328 اور خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 57434 ہے جن کیلئے مجموعی طور پر بنائے گئے 284 پولنگ سٹیشنوں میں سے 134 مردوں اور 134 ہی خواتین کیلئے جبکہ 16 مشترکہ پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جہاں 673 پولنگ بوتھ بنائے گئے ہیں جن میں 367 مردوں اور 306 خواتین کیلئے بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح پی پی 147 میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعدادایک لاکھ 40767 ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 7 لاکھ 7729 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 6 لاکھ 3038 ہے جن کیلئے مجموع طور پر 275 پولنگ سٹیشنوں میں 151 مردوں اور 124 پولنگ بوتھ خواتین ووٹرز کیلئے قائم کئے گئے ہیں۔
پورے پاکستان کی نگاہوں کے مرکز این اے 122 میں گزشتہ اڑھائی برس میں 18 سال کی عمر کو پہنچنے والے 21,734 نوجوانوں کے ووٹوں کا اضافہ ہوا۔ مئی 2013 میں این اے 122 میں ووٹوں کی کل تعداد 326028 تھی جو اب بڑھ کر 347762 ہو چکی ہے۔ 2013 میں مرد ووٹ 179720 تھے جو اب 1900328 ہو گئے ہیں۔ اسی طرح 10608 مردانہ ووٹوں کااضافہ ہوا ہے۔ ووٹرز کی تعداد 146308 تھی جو اب بڑھ کر 157434 ہو گئی ہے۔ اسی طرح خواتین ووٹرز میں 11126 کا اضافہ ہوا ہے۔ این اے 122 میں 284 پولنگ سٹیشن بنائے گئے ہیں جن میں 134 مردانہ، 134 زنانہ اور 16 مشترکہ ہیں۔ سٹیشنوںپر 284 پریذائیڈنگ افسر، 673 اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر اور 673 پولنگ افسر تعینات کئے گئے ہیں۔
این اے 122 میں امیدواروں کی کل تعداد 16 ہے۔ مئی 2013 میں سردار ایاز صادق نے 933889 عمران خان نے 84517 اور پیپلز پارٹی کے بیرسٹر عامرحسن نے 2833 ووٹ حاصل کئے تھے مخدوم جاوید ہاشمی کو 56 ووٹ ملے تھے۔این اے 122 اور پی پی 147 کے ضمنی انتخابات ویسے تو لاہور کے ایک حلقہ کا انتخاب ہے لیکن سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ان ضمنی انتخابات کے نتائج ملکی سیاست اور بلدیاتی انتخابات پر اپنے گہرے اثرات قائم کرینگے۔ اسی لئے دونوں جماعتوں نے اسے زندگی موت کا مسئلہ بناتے ہوئے اپنی ممکنہ افرادی قوت اور وسائل اس میں جھونک دیے ہیں اور ایک محتاط اندازہ کے مطابق اس حلقہ میں اب تک 20 سے 25 کروڑ روپے کے اخراجات کئے جاچکے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اخراجات کی حد صرف 15 لاکھ ہے اور زمینی حقائق کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں سے 15 لاکھ کے اخراجات دونوں پارٹیوں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر ہورہے ہیں۔
عوامی تحریک نے اپنے متفقہ فیصلے میں این اے 122کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی مکمل حمایت کا فیصلہ کیا ہے اور پی پی147سے عوامی تحریک کے صوبائی امیدوار اشتیاق چودھری نے پی ٹی آئی کے شعیب صدیقی کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے جبکہ این اے 122 سے عوامی تحریک پہلے ہی عبدالعلیم خان کے حق میں دستبرداری کا اعلان کرچکی ہے۔این اے 122کے ضمنی انتخاب کے سلسلہ میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی طرف سے ایک دوسرے پرسبقت لیجانے کیلئے بڑی تعداد میں انتخابی دفاتر قائم کئے گئے ہیں جس سے حلقے میں کیٹرنگ سروس کا کاروبار کرنے والوں کی چاندی ہو گئی انہوں نے مانگ دیکھتے ہوئے کرسیوں ، ٹینٹوں اور دیگر سامان کا منہ مانگا کرایہ وصول کرناشروع کردیا۔
دونوں جماعتوں کی طرف سے گلی محلوں کی سطح پر انتخابی دفاتر قائم کئے گئے ہیں جہاں پر کارکنوں اور سپورٹروں کے لئے بیٹھنے اور کھانے پینے کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ حلقے میں وسیع پیمانے پر انتخابی دفاتر کھلنے اور 11اکتوبر تک سامان کی بکنگ ہونے کے باعث کیٹرنگ سروس کا کاروبار کرنیوالوں کے پاس کرسیاں اور دیگر سامان ختم ہو گیا اور وہ دوسرے علاقوں میں کاروبار کرنیوالے اپنے ساتھیوں سے سامان لا کر معمول کا کام چلا رہے ہیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الزام عائدکیا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف ملک کے کرپٹ ترین آدمی ہیں، ان سے تو آصف زرداری بہتر تھے۔
انہوں نے کہا میاں صاحب حافظ آباد کا جلسہ دیکھ کر ڈر گئے اور خوف میں آکر کسان پیکیج دیدیا، نندی پور میں ڈاکہ مارا گیا اور پراجیکٹ کو 22 ارب کی بجائے 84 ارب تک پہنچا دیا، قوم پیسے اور تگڑی فوج سے نہیں بلکہ انصاف ملنے سے اوپر جاتی ہے،لوڈشیڈنگ اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی، ہم نے خیبر پی کے سے 5 ہزار پولیس اہلکاروں کو اس لیے نکالا ہے کہ وہ کرپٹ تھے، ہم 11 اکتوبر کو لاہور میں جیتیں گے اور اوکاڑہ میں بھی تگڑا مقابلہ کرینگے۔ نواز شریف نے 1994ء سے 1997ء میں 470 روپے ٹیکس دیا، موجودہ حالات میں قوم کو 2 میٹرو بسوں کی ضرورت تھی یا سکولوں کی؟ شہبازشریف دانش سکول بنارہے ہیں لیکن دانش سکول نہ بناتے تو21ہزار سکولوں کی دیواریں اور ٹوائلٹس بن جاتے، ڈیزل پر 50 فیصد جی ایس ٹی لگادیا گیا کبھی اتنا مہنگا نہیں کیا گیایورپ اور برطانیہ میں انصاف کا نظام ہے، اس لیے وہاں خوشحالی ہے۔
میں ایک بڑی تحریک کی تیاری کررہاہوں جو ہمیں عظیم قوم بنائیگی۔مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما و ممبر قومی اسمبلی حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ دوسروں پر بے بنیاد الزامات لگانے سے پہلے عمران خان کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے، قوم ان سے پوچھنا چاہتی ہے کہ 126 دن تک کنٹینر پر ایمانداری اور دیانت داری کا بھاشن دینے والے کے دائیں طرف قبضہ گروپ اور بائیں طرف مشرف سے قرضہ معاف کرانے والے کیوں کھڑے ہوتے ہیں؟ ایک طرف انتشار، پارلیمنٹ پر حملے اور شہروں کو بند کرانے کی سیاست ہے جس کا فیصلہ 11 اکتوبر کو عوام کریں گے کہ اس کا کیا انجام ہونا چاہئے؟ عمران نے اوکاڑہ میں اخلاق سے گری ہوئی باتیں کیں لیکن ہماری قیادت نے ہمیں ایسا سبق نہیں دیا۔ دوسروں کی پگڑیاں اچھال کر نیا پاکستان نہیں بن سکتا۔ 2013ء میں سردار ایاز صادق سے ہارنے کے بعد اب عمران کیوں بھاگ گئے وہ حوصلہ دکھاتے اور دوبارہ مقابلہ کرتے۔
تحریر: محمد شاہد محمود