تحریر: طارق حسین بٹ
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد نو از شریف سے حالیہ ملاقات خبروں اور تبصروں کی زد میں ہے۔اپوزیشن اس ملاقات کو اپنے موقف کے حق میں بیان کرنے کی کوشش کر ررہی ہے جبکہ حکومت اس ملاقات سے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔ کیا یہ بات سچ ہے کہ آرمی چیف نے میاں محمد نواز شریف کو پاناما لیکس سے اپنے خاندان کے افراد کے نام کلیر کروانے کا حکم صادر کر دیا ہے ۔اسولا آرمی چیف کا اس کا آئینی اختیار حاصل نہیں کہ وہ منتخب وزیرِ اعظم سے اس طرح کی گفتگو کرے لیکن پاکستانی سیاست میں آرمی چیف سب سے طاقتور کھلاڑی ہوتے ہیں لہذا وہ کچھ بھ کہہ سکتے ہیں۔ چند سال پہلے امریکی کمانڈر نے حکومتی پالیسی لے خلاف بیان دینے کی کوشش کی تھی تو صدرِ امریکہ بارک حسین اوبامہ نے انھیں فورا معزول کر دیا تھا۔کسی اینکر رسن یا میڈیا نے اس اقدام پر صدرِ امریکہ کے اس آمرانہ انداز پر کوئی تنقید نہیں کی تھی کیونکہ صدرِ امریکہ آئینی طور پر ایسا کرنے کے مجاز تھے ۔ہمارے ہاں تو کارجہ امور،دفاعی امور اور اور سیکورٹی امور کے سارے فیصلے آرمی چیف کرتا ہے اور وزیرِ اعظم بے بسی کی تصویر بنے یہ سب کچھ دیکھتا رہتا ہے۔
ذولفقات علی بھٹو کی وزرتِ عظمی میں اس طرح کی کوئی روائیت نہیں تھی لیکن بعد میں سیاست دانوں کی کمزوریوں کی بدولت آرمی چیف کا رول بہت زیادہ طاقت حاصل کر لیا جس سے سول حکمران خود کو خوف کا شکار سمجھنے لگے۔آصف علی زرداری کے ساتھ ایوانِ صدر میں کیا کچھ نہیں ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی انھوں نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا ۔میمو گیٹ کے سیکنڈل کے زمانے میں ن کی بیماری کی آڑ میں دبئی یاترہ بھی اسی دبائو کا نتیجہ تھی۔بڑی پشین گوئیاں ہوئیں کہ آصف علی زرداری واپس نہیں آئیں گئے لیکن ایسی تمام پیشن گوئیاں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔آصف علی زرداری اپنی پانچ سالہ ٹرم تو پوری کر گئے لیکن آرمی کے بڑھتے ہوئے رول کو وہ بھی کم نہ کر سکے۔آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کی مدتِ ملازمت میں تین سالہ توسیع بھی اسی دبائو کا نتیجہ تھا۔اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پھر بے شمار سکینڈلز کی موجودگی میں حکومت کی رخصتی یقینی تھی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آرمی چیف راحیل شریف نومبر میں ریٹائر ہونے والے ہیں لہذا نومر تک کا دورانیہ سیاست دانوں پر بڑا بھاری ہے۔کچھ حلقوں کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ یہ پا ناما الیکس نواز شریف فیملی کو سیاست سے بے دخل کرنے کے لئے منظرِ عام پر لائی گئی ہے ۔اس کھیل میں علاقائی اور عالمی طاقتیں بھی ملوث ہیںوگرنہ بیٹھے بٹھائے پاناما لیکس کے طوفان اٹھانے کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے۔اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ میاں برادران کوانتخابات میں شکست دینا فی الحال ممکن نہیں ہے کیونکہ صوبائی انتظامیہ میں ان کی جڑیں بڑی مضبوطی سے پیوست ہیں اور انتظامیہ انھیں کسی صورت میں ہارنے نہیں دے گی ۔ پنجاب کے عوام ابھی تک ان پر اعتماد کئے ہوئے ہیں کیونکہ پی پی پی اپنی آئیڈیا لوجی سے بے وفائی کرنے کی وجہ سے عوام کی نظروں میں گر چکی ہے جبکہ تحریکِ انصاف غیر سنجدیدگی کی وجہ سے عوام میں وہ پذیرائی حا صل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی جو میاں برادران کو شکست سے ہمکنار کر سکے۔میا ں برادران کو اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ عوامی دبائو سے اقتدار سے بے دخل نہیں ہو سکتے کیونکہ عوام اس وقت کسی قسم کے احتجاج کے موڈ میں نہیں ہیں۔فیس بک نے عوام کے سڑکوں پر آنے کی بجائے فیس بک پر اپنے جذبات کے اظہار کا جو موقعہ فراہم کیا ہوا ہے وہ اس پر ہی تکیہ کر رہے ہیں۔موسمِ گرما کی گرمی کی شدت ان کے نازک بدنوں کی برداشت سے باہر ہے۔
رمضان کے مہینے کا تقدس اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے اور پھر ساون بھادوں میں بارشوں کی تباہی میں کسی بھی سیاسی تحریک کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں لہذا عوامی تحریک کو خارج از امکان سمجھا جائے ۔آرمی چیف راحیل شریف اس وقت اپنی مقبولیت کی انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔عوام ضربِ عزب کی وجہ سے ان کی جانب دیکھ رہے ہیں کراچی کو تارگٹ کلر زسے پاک صاف کرنے اور بھتہ خوروں سے نجات دلوانے میں انھوں نے جو مثالی کردار ادا کیا ہے پوری قوم اس پر ان کی احسان مند ہے۔پی پی پی اور ایم کیو ایم کے کتنے ہی لٹیرے رینجرز کے خوف سے ملک چھوڑ کر بھاگ چکے ہیںکیونکہ اپنی کالی کرتوتوں کی بدولت انھیں جیل کی سلاخیں صاف نظر آ رہی تھیں۔آجکل ڈاکٹر عاصم رینجرز کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں اور ان کی جو درگت بن رہی ہے وہ عبرتناک ہے۔ڈاکٹر عاصم تو رینجرز کے شکنجے میں ہیں لیکن ان کے استادِ محترم ملک سے بھاگ کر دبئی اور امریکہ میں چھپے ہوئے ہیں۔آرمی چیف راحیل شریک کی مدتِ ملازمت میں وہ پاکستان میں آنے سے رہے۔وہ توہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں مانگ رہے ہوں گئے کہ آرمی چیف کسی طرح سے وقت سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں تا کہ ان کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہو سکے۔
ایسا کرتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے کروڑوں عوام آرمی چیف کی زندگی اور لمبی عمر کی دعائیں مانگ رہے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں وہی ایک ایسی شخصیت ہے جو ان کے مفادات کی حفاظت کر سکتی ہے۔ابھی حال میں ہی بلوچستان سے ٠ ٧ کروڑ کے لگ بھگ کرنسی نوٹوں کا خزانہ انسپکشن ٹیم کے ہاتھ لگا ہے جس سے یہ اندازہ کر نے میں چنداں دشواری نہیں ہونی چائیے کہ پاکستان کس حد تک کرپشن کی دلدل میں دھنس چکا ہے ۔یہ تو ایک سیکرٹری کا کارنامہ ہے لیکن وہ جو مختارِ کل ہیں ان کی کیفیت کیا ہو گی؟وہ جھنوں نے آف شور کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں ،وہ جو لینڈ مافیا ہیں ان کی لوٹ مار کا پیمانہ کیا ہوگا؟پاکستانی معاشرے سے صبر اور برداشت کا جو وصف دن بدختم ہو تا جا رہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی ہمارے حکمرانوں کی ہوسِ زر پرستی کا شاخسانہ ہے ہے۔عوام اپنے لتنے پر اپنے حواس نہ کھوئیں گئے تو کیا کریں گئے؟اگر انھیں کہیں سے بچائو کی کوئی نوید ملتی نظر آتی ہے تو شائد ہمارا معاشرہ یوں بری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوتا۔کرپشن چونکہ اپنی ساری حدود پھلانگ چکی ہے اس لئے معاشرہ بھی اپنی بقا کی ساری توانائیوں کھو چکا ہے۔آرمی چیف راحیل شریف آخری امید کی شکل میں افقِ وطن پر نظر آ رہے ہیں لیکن کیا وہ کرپشن اور لوٹ مار کے اس کلچر سے عوام کو رہائی دلا سکیں گئے؟
آئینی طور پرتو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ آرمی چیف سیاسی بیانات دینے یا سیاسی نظریات رکھنے کے مجاز نہیں ہوتے ۔انھیں حکومت ِوقت کے احکامات پر عمل پیرا ہونا ہوتا ہے وگرنہ بصورتِ دیگر وہ وردی اتار کر عوام میں قسمت آزمائی کے لئے نکل سکتے ہیں۔ہمارے آئین میں آئین سے ماورا اقدام کی صورت میں آرٹیکل چھہ کے نفاذ کی شق رکھی گئی ہے تا کہ کوئی طالع آزما شب خون مار کر حکموت پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔جنرل پرویز مشرف کے خلاف اس قانوں کی بے بسی دیکھتے ہوئے یہ برملا کہا جا سکتا ہے کہ آئین کی اس شق کا فوجی قیادت پر کوئی خاص اثر ہونے والا نہیں کیونکہ اس سے پہلے کسی آرمی چیف کے خلاف یہ شق رو بعمل نہیں ہو سکی۔یہ شق آئین کی کتاب میں درج ہے لیکن اس پر عمل داری کی کھبی نوبت نہیں آئی۔
جنرل ضیال الحق کھلے عام کہا کرتا تھا کہ میں جب چاہوں سیاستدان کتے کی طرح دم ہلاتے ہوئے میرے پاس آئیں گئے کیونکہ انھیں اپنے مفادات کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا،طاقت چونکہ میری مٹھی میں بند ہے لہذا ان کے پاس مجھ سے دور جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔جنرل ضیا الحق کی بات سو فیصد درست تھی کیونکہ پی پی پی کی قیادت کے علاوہ ملک کے سارے سیاستدان جنرل ضیاالحق کے قدموں میں ڈھیر تھے اور اس کی قدم بوسی کو ہی اپنی بقا کی ضمانت تصور کر رہے تھے۔جو اڑ گئے تھے وہ تاریخ میں تو زندہ رہے لیکن انھیں نے اپنے زندہ رہنے کی بڑی بھاری قیمت چکائی تھی۔اب یہ آرمی چیف راحیل شریف پر منحصر ہے کہ وہ کونسی راہ اپناتے ہیں؟ان کے سامنے ساری راہیں کھلی ہوئی ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ انھیں بہت سی سیاسی جماعتوں کی در پردہ حمائت بھی حاصل ہے۔وہ خاموش حمائت دینے والی جماعتیں کون سی ہیں وہ ہر صاحبِ نظر پاکستانی کو خوب خبر ہے۔،۔
تحریر: طارق حسین بٹ