تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
آج یہ بات ہر محب وطن پاکستانی پوری شدت سے محسوس کررہاہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مُلکِ پاکستان میں جتنی بھی (خواہ سول یا آمر) حکومتیں آئیں اور گئیں سب ہی نے اپنے ذاتی، سیاسی یا پارٹی نظریات اور افکارکوہی مقدم جانا اور اِسی کا ہی خوب خوب پرچا کیا، یوں وہ اپنی جتنی مدت کی حکمرانی امریکی آقاوں سے لکھوا کر لائیں تھیں وہ جیسے تیسے گزارکر چلتی بنیں۔
یعنی یہ کہ اِس دوران سب ہی نے اپنی پارٹی و ذاتی نظریہ کوتو متعارف کروایا مگریہ دیدہ ودانستہ قومی نظریہ کو پسِ پشت ڈالتی رہیں بالفرض اگر کبھی کسی کو قومی نظریئے کا خیال بھی آیا ،توبس وہ بھی ہلکے پھلکے انداز سے آیا، مگرپھریہ فوراََ ہی کسی نہ کسی مسئلے یا بحران میں دبادیاگیا،یا خود ہی دب کررہ گیا اور یوں حکمران جماعت کی حکومتوں اور حامی سیاستدانوں کا پارٹی نظریہ تو زورپکڑتاگیامگروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قومی نظریہ پسِ پشت جاتا چلا گیا۔
اَب اِس منظر میںقوم یہ کیوں ..؟ نہ سمجھے کہ برسرِ اقتدارجماعتوں اور سیاستدانوں کے نزدیک اپنی پارٹی و ذاتی نظریہ تو مقدم ہے مگر قومی نظریہ صرف ایوانوں ، دیوانوں اور قانون اور نصابی کُتب تک محدود ہوکررہ گیاہے ایسالگتاہے کہ جیسے ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور دوسرے حکومتی پِٹھوو ¿ںکے نزدیک یہ خیال قوی حیثیت سے معتبرہوگیاہے کہ قومی نظریئے کو بس یہیں (سردخانے ) تک ہی رکھاجائے اور اپنی اپنی پارٹیوں کا نظریہ عوام الناس اور دنیا میں پھیلایاجائے تاکہ اِن کی جماعتوں اور اِن کی ذاتوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔
آج اگر کسی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں سیکڑوں ڈالرفی بیرل بھی کم ہوجائیں تواِس کمی کا اثرہمارے یہاں بھی ذراساپڑہی جاتاہے اور پاکستان میں بھی تیل کی قیمتیں اُونٹ کے منہ میں زیرہ جتنی کم کردی جاتی ہیں جس کا کریڈٹ بھی ہمارے حکمران اپنی ذات اور اپنی پارٹی سے وابستہ وزراءو کارکنان اوراپنے حامی سیاستدان سے جوڑ دیتے ہیں پھریہ سب میڈیااور پبلک مقامات پر اوجھل اُوجھل کر پاکستان سمیت دنیابھرمیںیہ باورکراتے پھرتے ہیں کہ ہم نے اپنے عوام کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اِن کی خواہش و مرضی کے مطابق کمی کرکے ریلیف دیاہے،اور ہماری کوشش ہے کہ مُلک سے مہنگائی اور غربت کا خاتمہ ہواِنہیںاِسی جذبے حب الوطنی نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں کمی پر مجبورکیاہے تاکہ اِن کی حکومت میں عوام کو سستی اشیائے ضروریہ میسرہواور عوام کے چہروں پرشادابی اور خوشیاں رقص کرنے لگیں۔
اور اِسی طرح اگر مُلک میں پہلے سے موجود بجلی بحران بڑھ جائے یا بڑھتاہی چلاجائے، تو حکمران ،وزراءاور سیاستدان قوم سے یہ کہتے ہیں کہ قوم بارش کی دُعائیں کرے،اِن کی اپیل پرجب بیچاری مفلوک الحال اور بجلی کے بحران سے پریشان حال معصوم قوم اللہ کے حضورپیش ہوکر اِس کے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ اور اہلبیت کے صدقے ہاتھ اُٹھااُٹھاکر بارش کے لئے دُعائیں کرنی شروع کردیتی ہے ، تواِس کی دُعائیں قبول ہوجاتی ہیں،اللہ کی رحمت بارش کی صورت میں نازل ہوجاتی ہے اور دریااور ڈیم بھرجاتے ہیں تو اِس کا بھی حکمران جماعت،وزراءاور سیاستدان خود کریڈٹ لے لیتے ہیں اور اپنے سینے پھولاپھولاکر کہتے پھرتے ہیں کہ ہم نے قوم کو دعا کرنے کا مشورہ دیاتھااگر ہم قوم کو مشورہ نہ دیتے تو قوم بھی دعانہ کرتی اور جب قوم دعانہ کرتی تو بارش بھی نہیں ہوتی اور جب بارش نہ ہوتی تو مُلک کے دریااور ڈیم بھی نہ بھرتے جب ایسانہیںہوتاتو آبی مسئلہ بھی حل نہ ہوتااور ہماری دعاکی اپیل پرقوم دعانہ کرتی تو مُلک میں سیلاب بھی نہ آتااور جب سیلاب نہ آتاتو پھر ہم بیرون ممالک سے امداد کی اپیل بھی نہ کرتے جب اپیل نہ کرتے تو مُلک میں ڈالرزبھی نہ آتے اور جب ڈالرز نہ آتے تو مُلکی معیشت اور اقتصادی صورت حال میںبھی بہتری نہ آتی اور جب ایسانہ ہوتاتو مُلک میں زرِمبادلہ بھی نہ بڑھتااور جب زرِ مبادلہ نہ بڑھتاتو مُلکی معیشت بھی عالمی منڈی میںمستحکم نہ ہوتی اور جب یہ سب کچھ نہ ہوتاتو مُلک بھی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن بھی نہ ہوتا۔
الغرض کے میرے مُلک کے معاشرے اور میری تہذیب کے ہر زمانے کے ہر فرد میں خودفریبی اور ذاتی نمودونمائش اور شخصی و پارٹی نظریات و افکارکرناضرورت بننے کے ساتھ ساتھ کچھ فیشن بھی بن گیاہے جو کہ ہماری ترقی و خوشحالی کے لئے بڑی روکاوٹ ہے آج دنیاکی تاریخ گواہ ہے کہ روئے زمین کے جس مُلک کے جس معاشرے اور جس تہذیب کے جس زمانے کے لوگوں میں یہ عنصرغالب رہاوہ اپنے قومی نظریہ سے بھٹک گئے اور اپنے ذاتی و سیاسی نظریہ میں لگے رہے تو اِن کی ترقی اور خوشحالی رک گئی اور وہ دوسروں کے ہی رحم وکرم پررہے اور جب مدتوں بعد یہ اپنے اِس خودفریبی کے عنصرسے نکلے اور اِن میں اپنے قومی نظریہ کی اہمیت اجاگرہوئی تو اُنہوں نے چاردانگِ عالم اپنی ترقی و خوشحالی کے جھنڈے گاڑے اور خود کو منوایااور دنیاپر حکومت کی اور پھر ساری دنیامیں کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ترقی و خوشحالی کی اُوج ثریاکی بلندیوں کو بھی چھوا ہے۔
موجودہ حالات میں میرااور آپ کا یہ جنت نظیردیس پاکستان جس نازک اور کٹھن دور سے گزررہاہے اِس صورتِ حال میں ہر پاکستانی پر یہ لازم ہوتاہے کہ وہ کم ازکم اِن حالات میں تو اپنے ذاتی وشخصی اور سیاسی نظریات سے مفادات اور فوائد کے لئے سوچناچھوڑدے اور اپنے اُوپر یہ فرض کرلے کہ اِسے اپنی ذات اور اپنی پارٹی سے مُلک کو ہر حال میں فائدہ پہنچاناہے اِس مُلک کو جس نے اِسے پالا،پوسا، اور عزت و آبروکی حفاظت کی ،اِسے آج اپنے ذاتی ، شخصی اور سیاسی فائدے کے حصول کے خول سے باہر نکل کر اپنے مُلک اور اپنی قوم کے فائدے اور اِس کی ترقی و خوشحالی کے لئے اپنے تن من دھن کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرناہے اور مُلک کو مفاد پرست سیاستدانوں اور ذاتی خول میں رہ کر اشرافیہ اور دوسروں کے فائدے کے لئے مُلک کو نقصان پہنچانے والوں سے بچانے کے لئے پاک فوج کا ساتھ دیناہے۔(ختم شد)
تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com