تحریر : عبدالرزاق چودھری
مہذب ملکوں میں سیاست اور اخلاقیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ایک سیاستدان کسی دوسرے سیاستدان پر الزام لگانے سے اس وقت تک گریز کرتا ہے جب تک اس کے پاس اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت موجود نہ ہوں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں مروجہ سیاسی روایات میں اس پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اور ایک سیاست دان دوسرے سیاستدان کی تضحیک اور تذلیل یوں کرتا ہے گویا اس میدان میں حاصل کردہ برتری ہی سیاسی بالا دستی کا باعث ہو گی۔
اگر بات کی جائے قومی سیاسی افق پر سرگرم سیاسی رہنماوں کے سیاسی اخلاقی رویے کی تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ سیا ست دان اپنی تقریروں،بیانات اور پریس کانفرنسز میں جب تک ایک دوسرے پر گھناونے الزامات کی بوچھاڑ نہ کر دیں تب تک ان کی تسلی نہیں ہوتی۔او راگر کوئی کسر باقی رہ جائے تواسے حاشیہ بردار پوری کرنے میں خوب مہارت رکھتے ہیں۔سیاسی ٹاک شوز ہی کو دیکھ لیجیے ۔سیاسی جماعتوں کے خوشامدی اور چاپلوس معمولی نوعیت کے اختلاف پر باہم دست و گریبان دکھائی دیتے ہیں۔اور اپنی جماعت کے موقف کا دفاع کرنے کی آڑ میں اخلاقی حدود کو نقب لگا کر مخالف کی عزت و وقار کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔یہ ابن الوقت اور طوطا چشم اپنے آپ کو پارٹی کا سب سے بڑا خیر خواہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اور بعض اوقات تو بات گالی گلوچ تک پہنچ جاتی ہے اور جذبات کی روانی میں یہ احباب یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کروڑوں ناظرین ان کو ٹی وی سکرین پر دیکھ رہے ہیں۔
میں اور آپ نے سینکڑوں ایسی مثالیں دیکھی ہیں کہ ایک سیاسی رہنما ٹاک شو میں قسمیں کھا کھا کر اپنی قیادت کی حب الوطنی،ایمانداری،فہم و فراست اور دور اندیشی کا یقین دلا رہا ہوتا ہے اور پھر تھوڑے عرصے بعد وہی رہنما اپنے ذاتی مفادات سیراب نہ ہونے کی بنا پر قیادت کے خلاف پریس کانفرنس کر رہا ہوتا ہے اور بد عنوانی کی لمبی فہرست میڈیا کے سامنے لہرا لہرا کر اپنی باتوں کو درست ثابت کرنے میں کوشاں دکھائی دیتا ہے اور اس احساس سے قطعی مبرا کہ ایک ہفتہ پہلے اس کے خیالات،افکار اور نظریات کیا تھے۔
اب اگر جائزہ لیں سیاسی جماعتوں کے قائدین کی تقریروں،بیانات اور پریس کانفرنسز کا تو بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عام کارکن تو سیاسی اختلاف میں اخلاقی پہلو کو نظر انداز کر ہی چکا ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی نظر میں بھی اس پہلو کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وطن عزیز کے سیاسی منظر نامے میں ان دنوں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن صف آرا دکھائی دیتی ہیں۔اور عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ الیکشن میں مقابلہ ان ہی دو جماعتوں کے درمیان ہوتا ہے۔
جلسے جلوسوں کی پر بہار رونق میں تقریروں اور بیانات کا سلسلہ بھی تواتر جاری رہتا ہے اور اگر مذکورہ تحریر کردہ سرگرمیوں کو بنیادبنا کر ایک غیر جانبدارانہ رائے قائم کی جائے تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سربراہ تحریک انصاف عمران خان ایماندار محب وطن پاکستانی ہیں لیکن وہ اپنے جذبات پر قابو پانے میں قطعی ناکام ہیں۔ان کی زبان سے نکلے ہوے الفاظ اکثر اوقات سیاسی مخالفین کے لیے دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔اس میں تو دوسری کوئی رائے نہیں کہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے لیکن یہ حسن تب ماند پڑ جاتا ہے جب سیاست منطق اور دلیل کے مفہوم سے نکل کر الزام اور دشنام کی روش اختیار کر جائے۔ عوام عمران خان کی قدر و منزلت کو مد نظر رکھتے ہوے قطعی توقع نہیں کرتے کہ اس پائے کا لیڈر مخالفیں کو للکارتے ہوے اخلاقی درس کو بالکل ہی فراموش کر دے اور محض چند جذباتی نوجوانوں کو خوش کرنے کے لیے جارحانہ رویہ کو فروغ دے۔ قیاس غالب ہے کہ عمران خان اپنے درشت رویے کی وجہ سے ہزاروں سپورٹرز سے محروم ہو چکے ہیں اور اگر انہوں نے اپنی اس شخصی کمزوری پر قابو نہ پایا تو مزید عوامی حمایت میں کمی کا احتمال ہے۔
میں اپنے ذاتی مشاہدے کی روشنی میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ پاکستان میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو بیک وقت عمران خان اور نواز شریف کو ایک جتنا ہی پسند کرتا ہے لیکن جب حق رائے دہی کے استعمال کا وقت آتا ہے تو وہ طبقہ اپنا ووٹ میاں نوز شریف کے پلڑے میں ڈال دیتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ میاں صاحب کا پر وقار لب و لہجہ ہے اور نواز شریف اپنے اسی انداز تکلم کی شائستگی کی بدولت عمران خان پر سیاسی برتری بھی حاصل کیے ہوے ہیں۔
ویسے بھی عمران خان کی جارحانہ انداز سیاست کی خامی سے ایک عام فہم پاکستانی بھی آگاہ ہے جبکہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ خود خان صاحب کو اپنی اس خامی کا ادراک کیوں نہیں ہوتا ۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں جس دن کپتان نے اپنے اندر جھانک کر اپنی اس خامی کی نشاندہی کر لی اور اس پر قابو پا لیا تب وہ حقیقی معنوں میں میاں صاحب کو شکست بھی دے سکتے ہیں۔اب ذرا غور کیجیے عمران خان جو الزامات شریف برادران پر لگاتے ہیں اسی سے ملتے جلتے الزامات مسلم لیگ کی جانب سے بھی خان صاحب پر لگتے ہیں لیکن اس مشق میں بنیادی فرق یہ ہے کہ عمران خان براہ راست اور نام لے لے کر الزامات کی گردان پڑتے ہیں جبکہ میاں صاحبان جب عمران خان کو ہدف تنقید بناتے ہیں تو اشارے کنائے میں بات کر کے اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان اپنی ایمانداری،خلوص نیت اور نئے پاکستان کا خواب آنکھوں میں سجانے کے باوجود نواز شریف سے زیادہ مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔
پلڈات کے حالیہ سروے نے بھی اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ میاں برادران اس وقت ملک کے سب سے مقبول لیڈر ہیں اور قومی محبوبیت میں دوسرا نمبر عمران خان کا ہے۔ لہٰذا عمران خان کو سیاسی سرگرمیوں میں اخلاق،برداشت اور برد باری کے پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے تا کہ ان کی کرشماتی شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہے اور ان کی عوامی مقبولیت روبہ زوال نہ ہو۔
تحریر : عبدالرزاق چودھری