تحریر : ایم سرور صدیقی
سو کر اٹھا محسوس ہوا گھر والوں کی عجب کیفیت ہے چولہے میں دھواں ہے نہ ناشتے کی کوئی تیاری ۔۔میں نے پوچھا اماں! ناشتے میں کیا ہے؟۔۔انہوں نے کوئی جواب نہ دیا مجھے لگا جیسے اماں کی آنکھوں میں آنسو ہوں ۔والد صاحب کی طرف دیکھا افسردہ افسردہ، غمگین، دل گرفتہ۔۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی تو بڑے بھائی ریاض ایک کونے میں کھڑے رو رہے تھے میںنے ان کا ہاتھ تھام کر دریافت کیاآپ کیوں رورہے ہیں ؟ انہوں نے کوئی جواب نہ دیا البتہ ان کے رونے کی آواز مزیدبلند ہوگئی چارپائی پر بیٹھے بھائی نسیم کی بھی یہی حالت تھی۔۔ دل میں سوچا الہی کیا افتاد آن پڑی ہے کہ ہر کوئی پریشان پریشان ہے بتاتا بھی کچھ نہیں شاید کوئی رشتہ دار عزیز وفات پاگیا ہے
منہ ہاتھ دھو کر گھرسے باہر نکلا تو یوں لگا میاںچنوںکا ہر شہری سہما سہما، ڈرا ڈرا اور سوگوار ہے کچھ آگے بڑھا تو ایک خبطی قسم کا بوڑھا ننگی گالیاں دے رہا تھاکبھی کبھی وہ جیوے جیوے کا نعرہ لگاتا پھر گالیاں دینے میں مصروف ہو جاتا درجنوں بچے خبطی کے ارد گرد جمع تھے شاید ان کی دانست میں کوئی تماشاہورہا تھااسی اثناء میں ایک واقف کار لڑکے نے میرا ہاتھ پکڑا اور کھینچتا ہوا ایک طرف لے گیا موڑ مڑتے ہی ایک عجوم پر نظر پڑی ان میں بچوںکی تعداد سب سے زیادہ تھی ان کے ارد گرد جمع لوگ کچھ کھا رہے تھے
ہم بھی آہستہ آہستہ ان کے پاس پہنچ گئے معلوم ہوایہاں حلوہ بانٹا جارہا ہے سوچا شاید کوئی نذر نیاز ہے یا پھر ختم شریف اسی دوران سپید دودھ سے بالوں والا ایک بابا ( جس کی صورت فرشتے جیسی تھی) آکر ہمارے قریب آکھڑا ہواوہ بلند آواز میں چیخ چیخ کر کہنے لگا شرم کرو! حیا کرو! موت پر اتنا جشن۔ دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا وہاں مجھے علم ہوا کہ آج صبح معزول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدی گئی اسی وجہ سے میرے گھر کی فضا میں یاسیت رچی ہوئی تھی شہر کے بیشتر لوگ سوگوار تھے اور یہاں کچھ لوگ ان کی موت پر حلوے بانٹ رہے تھے۔۔
ایک مقبول ترین قومی رہنما کی اس انداز میںموت ۔۔ایک سانحہ سے کم نہیں پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑی طلسماتی شخصیت ذوالفقارعلی بھٹو بلاشبہ حضرت قائد ِ اعظم کے بعد سب سے بڑے لیڈر بن کر ابھرے۔” آیا اور چھا گیا ”کا مقولہ صحیح معنوں پر ذوالفقار علی بھٹوپر صادق آتاہے ان کی آمدسے قبل سیاست جاگیرداروں، حکومتی منظور نظر لوگوں ۔۔ اور وڈیروں کے گھرکی لونڈی سمجھی جاتی تھی وہ قومی امور کے فیصلے اپنے ڈرائنگ روموںمیں بیٹھ کر کیا کرتے تھے اور کسی کو دم مارنے کی بھی تاب نہ تھی ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کو عوامی رنگ دیا انہوں نے سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر ہوٹلوں، تھروں، ٹی سٹالوں اور باربروں کے حمام میں لا پھینکا اور پاکستان کی تاریخ کے طاقتور ترین سیاستدان بن گئے
انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی جس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑڈالے ۔۔بڑے بڑے بھاری بھر کم سیاستدانوں کے مقابلے پر PPP کے امیدوار ایسے تھے جن کو محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا بلکہ لوگ انہیں مذاق کرتے تھے نتیجہ آیا تو بڑے بڑے برج الٹ گئے یوں سمجھئے سیاسی انقلاب آگیا ذوالفقار علی بھٹو کی طلسماتی شخصیت کی بدولت پیپلزپارٹی کے غیر معروف امیدواروں نے مخالفین کی ضمانتیں ضبط کروادیں 1977ء کے الیکشن میں امیدواروں کی شخصیت، سیاسی جدوجہد، خاندانی پس منظر سب مائنس ہو گئے بھٹوکا نام جس نام کے ساتھ نتھی ہوگیا معتبر ہو گیاوہ دنیا کے پہلے سول چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر بھی رہے۔۔۔ صدر پاکستان بھی اور وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے
ان کے دورحکومت میں طاقتور وزیرِ اعظم کاتصور ابھرا جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت ملی قوم سقوط ِ ڈھاکہ کے باعث شکست خوردہ تھی۔زخم ہرے تھے دور دور تک ان کے پایہ کا کوئی لیڈر نہ تھا اس صورت ِ حال نے انہیں ایک مطع العنان حکمران بنا دیا پارٹی کے دیگر رہنمائوں کے لئے اختلاف رائے بھی جرم بن گیا خود پیپلزپارٹی کے لوگ کہنے لگے بھٹوکی شخصیت تضادات کا مجموعہ ہے۔ شاید اسی لئے متعدد قریبی ساتھی معراج محمد خان، جے اے رحیم، مختار رانا وغیرہ۔۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور ِ حکومت میں ان کا ساتھ چھوڑ گئے ۔۔۔ان خوبیوں یا خامیوں کے باوجود ان کے پاکستان پر بہت سے احسانات ہیں 1977ء کا متفقہ آئین ذوالفقار علی بھٹو کا ہی کارنامہ ہے، اسلامی سربراہی کانفرنس، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز، اسلامک بلاک کی تشکیل، تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی سوچ، قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا اور ایک لاکھ پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی ۔۔۔ان کی بہترین کاوشیں قراردی جا سکتی ہیں۔ یہ بات اکثرسننے میں آ تی رہی کہ ذوالفقار علی بھٹو کی قسمت کا فیصلہ اسی روز ہوگیا تھا جس روز پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیادرکھی گئی تھی بھٹو نے کہا تھاہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹمی پروگرام ہر قیمت پر جاری رہے گا
اسلامی بلاک کے ایک محرک شاہ فیصل کو ایک سازش کے تحت بھتیجے کے ہاتھوں شہید کروادیا گیادوسرے محرک کو منظر سے ہٹانے کیلئے پھانسی دیدی گئی پیپلزپارٹی کے رہنماایک عرصہ سے یہ بھی کہہ رہے ہیں بھٹوکی پھانسی عدالتی قتل ہے بہرحال اس بات میں سچائی ہے یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج سے 35 سال قبل اس لیڈر کوموت دیدی گئی۔۔جو غریبوںکی بات کرتا تھا۔ جس نے پاکستان کی سیاست اور سیاست کا انداز بدل کر رکھ دیا۔۔جس تمام مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا خواب دیکھا۔۔۔جو دل سے چاہتا تھا اسلامک بلاک کی کرنسی ،دفاع اور تجارت مشترکہ ہو۔۔۔ لوگ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ بھٹو اتنا بڑا لیڈر تھا کہ اس کی شخصیت کے پاکستانی سیاست پر اب تلک اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
۔اس کی حمایت اور مخالفت میں اب بھی ووٹ ملتے ہیںحضرت قائد ِ اعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کانام آج بھی معتبرہے وہ اب اس دنیا میں نہیں لیکن وہ لاکھوں، کروڑوں لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیںغالب خیال ہے کہ قیامت تک زندہ رہیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹونے پاکستان، جمہوریت اور سیاست کیلئے اپنی جان قربان کردی لیکن اصولوں پر سمجھوتہ کرنا گوارا نہ کیا۔یہ بھی کہا جاتاہے وہ پاکستان کے ایک متنازع کردار تھے۔۔۔ ان پر پاکستان توڑنے کاالزام بھی لگایا جاتا ہے ۔۔یہ بھی کہا جا سکتاہے ذوالفقار علی بھٹوکا کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے بغیر صنعتیں قومی تحویل میں لیناملکی معیشت، تجارت اورکاروبار کو بے
انتہا نقصان کا موجب بنا اس کے بعدکاروباری لوگوں نے کسی حکومت پر اعتبار کرنا گناہ سمجھ لیاان ساری باتوںسے صرف نظر پیپلزپارٹی کے بانی اپنے مخصوص نظریات، غریبوں سے محبت اور اپنی طلسماتی شخصیت کے باعث ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ جنرل ضیاء الحق سمیت ان کے کٹر مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ لاکھ کوششوں کے باوجود پیپلزپارٹی ختم کیا جا سکا نہ بھٹو لوگوں کے دلوں سے کھرچے جا سکے۔ جب بھی 4 اپریل آتا ہے لگتا ہے سپید دودھ سے بالوں والا اور فرشتے کی سی صورت والا ایک بابا میرے کان میں سرگوشی کرتا ہے
دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا اور میں تائید میں سر ہلاکر رہ جاتا ہوں کہ واقعی زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے او ربھٹو اپنی تربت سے فکری اندز میں آج بھی اپنی برسی کے موقعہ پر دنیا کے طول و عرض سے آئے لوگوں سے مخاطب تو ہوتے ہوں گے
کون کہتاہے، موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
تحریر : ایم سرور صدیقی