تحریر: پروفیسررفعت مظہر
پاکستانی سیاست کو سمجھنے کے لیے افلاطونی ذہن چاہیے جو ہمارے پاس نہیںہے اِس لیے ہم ٹامک ٹوئیوںسے ہی کام چلاتے رہتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی چڑیا ،طوطا ،مینایا کوا توہے نہیںجو ہمارے لیے مخبری کرسکے۔یوںمحسوس ہوتاہے کہ جیسے ہم ایسے سیاسی جنگل کے باسی ہوںجس میںسب اپنی اپنی بولیاںبولتے رہتے ہیں۔مولانافضل الرحمٰن حکومت کے اتحادی بھی ہیںاور تڑیاں بھی لگاتے رہتے ہیں ۔جماعت اسلامی خیبرپختونخوامیں تحریکِ انصاف کی اتحادی اورپختونخوا کابلدیاتی الیکشن بھی تحریکِ انصاف سے مل کرلڑنے جارہی ہے لیکن اکیسویںترمیم کے معاملے میںمولانافضل الرحمٰن کی اتحادی۔طرفہ تماشہ یہ کہ تحریکِ انصاف اور مولانافضل الرحمٰن کاہروقت اِٹ کھڑکا چلتا رہتاہے۔
ایم کیوایم کے موڈ پر منحصر ہے کہ اُس نے کب سندھ حکومت میںشامل ہوناہے اورکب داغِ مفارقت دینا ۔قاف لیگ اورعوامی مسلم لیگ وَن مین شو ہیں ،یہ الگ بات کہ سب سے زیادہ رولا یہی جماعتیںڈالتی ہیں۔پیپلزپارٹی کی ساری سیاست جنابِ آصف زرداری کے گردگول گول گھومتی رہتی ہے لیکن آجکل اِس میںبلاول زرداری کی وجہ سے کچھ رخنے نظرآنے لگے ہیں۔ زرداری صاحب جوبیان دیتے ہیں بلاول اُس کے بالکل اُلٹ بیان داغ دیتاہے اوربیچارے معصوم جیالے حیران کہ کیدی منیے تے کیدی نہ منیے ۔یہ بجاکہ پہلے تولو ،پھربولو لیکن اِس سیاسی جنگل کے شیر تو ایسے کہ تولتے تولتے ہی اتنی دیرکر دیتے ہیںکہ اُن کے بولنے سے پہلے ہی کوئی نہ کوئی کھڑاک ہو جاتاہے ۔محترم عمران خاںلہوگرم رکھنے کاکوئی نہ کوئی بہانہ تراشتے رہتے ہیں ۔پہلے اُنہوںنے اپنے بَلّے سے پھینٹی پروگرام شروع کیا لیکن نوازلیگ کی گُگلی سے چاروںشانے چِت ۔تب شورمچادیا کہ الیکشن کمیشن اورنگران حکومتیںتو اُن کے خلاف تھیںہی ،ستم بالائے ستم یہ کہ جِن پہ تکیہ تھاوہی پتے ہوادینے لگے جس چیف جسٹس کی بحالی کی خاطر وہ پورے چھ دِن جیل میںرہے ،اُسی کے حکم پرRO’s نے روندی ماردی ۔خاںصاحب توشاید صبرشکر کرکے بیٹھ ہی رہتے لیکن بُراہو علامہ قادری سے لندن میںہونے والی ملاقات کاجس میں لندن پلان تشکیل پایااور خاںصاحب کویقین دلادیا گیا کہ اِدھروہ ڈی چوک پہنچے اوراُدھر امپائرکی انگلی کھڑی ہوئی ۔یہ توبعد میںپتہ چلاکہ امپائرکا تو وہ ہاتھ سوگیاتھا سرہانے دھرے دھرے ۔اُدھر دھرنوںکے شورمیں میاںبرادران کچی نیند سے بیدارہوئے اوراسحاق ڈارصاحب کومذاکرات کافریضہ سونپ دیا ۔ڈارصاحب کی یہ خوبی کہ وہ وکیل تونہیں لیکن وکیلوںکی طرح تاریخ پہ تاریخ لینے کے ماہر۔
وہ تو مولانافضل الرحمٰن جیسے گھاگ سیاستدان سے بھی ہَتھ کرگئے ۔ہوا یوںکہ اکیسویںترمیم کی متفقہ منظوری کے شوقین وزیرِاعظم صاحب خوب جانتے تھے کہ مولاناصاحب کوئی نہ کوئی پھڈا ضرورڈالیںگے ۔اُنہوںنے ڈارصاحب کو مولاناکے چیمبرمیں بھیجا ،اُدھرڈار صاحب نے مولاناکو باتوںمیں لگایااور اِدھر پارلیمنٹ نے اکیسویںترمیم کی متفقہ منظوری کا کھڑاک کر ڈالا ۔اب مولانانے تمام دینی جماعتوںکو اکٹھاکرکے کہاہے ہمارے مطالبات مانوورنہ ہم مدرسے بندکرکے جیلیں بھردیں گے ۔مولاناکا اصل مطالبہ توایک آدھ مزیدوزارت کاحصول ہے لیکن آڑمساجد اورمدارس کے خلاف ایکشن کی۔مولانا کی بے چینی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ چیف جسٹس ناصرالملک صاحب نے ملٹری کورٹس کے بارے میںتین رکنی بنچ تشکیل دے دیاہے اورعام خیال یہی ہے کہ بنچ متوازی عدالتی نظام گردانتے ہوئے ملٹری کورٹس کو پھڑکادے گا۔اگر ایسا ہوگیا توپھرمولاناکی جماعت کونئی وزارت توملنے سے رہی البتہ پہلی دووزارتیں بھی چھن جانے کاخطرہ بہرحال موجودہے۔
اسحاق ڈارصاحب نے مذاکرات کے نام پرتحریکِ انصاف کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا جس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ ہپھ گئے ۔مولاناقادری توتھک کر کسی نئی پلاننگ کے لیے چندہ اکٹھاکرنے اپنے دیسسدھارے لیکن خاںصاحب ڈٹے رہے ،یہ الگ بات ہے کہ اُداس خاںصاحب اپنے کنٹینرکے اندر ہروقت گنگناتے رہتے تھے
کیا غم خوار نے رسوا لگے آگ اِس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو
دھرناابھی جاری تھاکہ سانحہ پشاورہوگیااور خاںصاحب کومجبوراََ دھرنا ختم کرناپڑا ۔خاںصاحب نے دھرنوںکے دَوران ایک بارکہاتھا سوچتاہوں کہ اگردھرنا ختم ہوگیا تومیری شامیںکیسے گزریںگی”۔ گویا
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے
اب رہائی ملی بھی تو مر جائیں گے
یہی وجہ ہے کہ خاںصاحب نے آؤ دیکھانہ تاؤ ،اپنی اُداس شاموں کو خوشگواربنانے کے لیے نیاپاکستان بنانے سے پہلے ہی ریحام خاںسے شادی کرکے اپنی زندگی میں تبدیلی لے آئے۔خیال تویہی تھاکہ خاںصاحب نے تبدیلی کاوعدہ پورا کردیا اِس لیے اب ایک اچھے شوہرکی طرح اپنی بیگم صاحبہ کی خدمت میں جُت جائیںگے لیکن ہماری توقعات کے بالکل برعکس خاںصاحب پھر اِن ایکشن”ہیں ۔کپتان صاحب نے سوچاہوگا کہ مومن کی تلوار اگر میان میںرہے تو زنگ آلود ہوجاتی ہے اِ س لیے سونامیوں کو کسی نہ کسی کام پرلگا دیناچاہیے ۔اُنہوںنے سوچاکہ ضمنی انتخاب توہونے سے رہے اِس لیے چلواپنے ٹائیگروںاور ٹائیگرنیوں کا انتخاب ہی کروادیتے ہیں۔اب نوجوان ٹائیگردھاڑتے اور ٹائیگرنیاںچنگھاڑتے ہوئے انتخابات میںحصّہ لے رہی ہیںاور خود خاںصاحب خیبرپختونخوا کو جنت نظیربنانے نکل کھڑے ہوئے ۔اُنہوںنے 90 دنوںمیں نیاپاکستان بنانے کااعلان کیالیکن ہماری بدقسمتی کہ وہ حقِ حکمرانی سے کوسوںدور رہے ۔پھرچھ ماہ میں خیبرپختونخوا کی قسمت سنوارنے چلے لیکن لندن پلان آڑے آگیا ۔اب دیکھیںبہشت بَرسرِ زمیں کب بنتاہے۔
اُدھر ٹائیگراور شیرباہم گتھم گتھا اوراِدھر شکاری تاک میں۔ماناکہ شکاری کے تیرآجکل نشانے پرنہیں بیٹھ رہے لیکن جب زرداری صاحب جیساگھاگ شکاری ہوتو کچھ بھی ہوسکتاہے ۔اُنہوںنے اپناجال پھیلادیاہے اورپہلی قسط کے طورپر تحریکِ انصاف کے چار پرندے بھی شکار کرلیے اب سندھ اسمبلی تحریکِ انصاف سے خالی ہوگئی ۔دراصل پیپلزپارٹی کوخطرہ تھا کہ کہیںتحریکِ انصاف دوسری جماعتوںکے ساتھ مل کر اُن کی سینیٹ میںایک دوسٹیں کم نہ کردے اِس لیے اُس نے یہ کھڑاک کردیا ۔اُدھر ایم کیوایم کی پتنگ ہواؤںکے دوش پراونچی اُڑان میںاِس لیے پیپلزپارٹی سے مفاہمت کاامکان مفقود۔ویسے بھی الطاف بھائی لندن میںبیٹھ کر ہرروز یہ بڑھک لگادیتے ہیں کہ فوج اقتدارسنبھال لے ۔اِس سے پہلے شیخ رشیدبھی پانچ سال تک کرلاتے اوراپنی قلم دوات سے فوج کو اقتدار سنبھالنے کی عرضیاںلکھتے رہے لیکن شیخ صاحب ہی کے بقول فوج سَتّو پی کرسوتی رہی ۔اب شیخ رشیدکی جگہ الطاف بھائی نے لے لی ہے لیکن فوجی دَورمیں اقتدارکے مزے لوٹنے والی قاف لیگ تا حال خاموش،وجہ یہ کہ اُن کی سائیکل کی پھوک نکلی ہی رہتی ہے ۔سیانے کہتے ہیں کہ سائیکل کونئے ٹائرٹیوب کی ضرورت ہے لیکن وہ دستیاب نہیںکیونکہ وہ تو دوکان ہی بندہوچکی اور پرانادوکاندار بوڑھا ،بیمار،لاچار ،نکبت میںگرفتار۔نئی دوکان کھلنے کافی الحال دوردور تک کوئی امکان نہیں ۔
تحریر: پروفیسررفعت مظہر