سوہنی مہینوال کی کہانی میں سوہنی دریا پار کرنے کےلیے کچے گھڑے سے کچھ یوں مخاطب تھی:
گھڑا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے:
میں کچا، نہ جاناں ترن (میں کچا ہوں اور تیرنا نہیں جانتا)
میرے مٹی اے کھردی جاندی (میری مٹی گھلتی جارہی ہے)
سیاسی اصطلاح میں تو پارٹی تبدیل کرنے والوں کےلیے کچھ اور لفظ استعمال کیا جاتا ہے لیکن ’’نظریہ اقتدار‘‘ ایک ایسا نظریہ ہے جس کے سامنے سب کچھ بے معنی ہے۔ خیر کچھ رعایت دیتے ہوئے انہیں یہاں کچے گھڑے تک ہی محدود رکھتا ہوں۔
محبت کی داستانوں میں تو کچا گھڑا بھی ہوگا، دریا بھی، اور پار لگنے کےلیے سخت جدوجہد بھی۔ لیکن سیاست کی داستان میں ایسے چکنے گھڑے موجود ہیں جو دریا میں مسلسل موجود رہتے ہوئے بھی ڈوبنے کے خطرے سے دوچار نہیں کیونکہ بوقت ضرورت انہیں پانی کی بڑی اور چھوٹی لہریں (عوام) منزل مقصود تک پہنچانے کےلیے میسر ہیں۔
2018 کے الیکشن سے پہلے جو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی، ان میں اس وقت نصف سے زیادہ حکمران جماعت کے ساتھ تعلق رکھنے والے اراکین ایسے ہیں جو 2008 کے الیکشن میں کسی اور کیمپ میں بیٹھے تھے اور اس سے بھی پہلے 2002 کے عام انتخابات میں وہ ایک ایسی جماعت کے پلیٹ فارم پر اکٹھے تھے جس کا ظہور الیکشن سے صرف چندہ ماہ پہلے ہوا تھا۔
ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے 2013 کے الیکشن میں ہچکولے کھاتے ہوئے کچھ گھڑے ایک بڑے جزیرے پر پہنچے، بادشاہ سلامت سے ملاقات ہوئی معافی تلافی بھی ہوگئی اور اگلا الیکشن جیتنے کا انتظام بھی ہوگیا۔ کچھ جو اپنے بل بوتے پر آزاد جیتے تھے وہ بھی اقتدار کا مزہ کیوں نہ لیتے؟ سو وہ بھی شامل ہوئے حکمرانی میں۔ لیکن افسوس کہ پانی کی وہ چھوٹی اور بڑی لہریں اب بھی وہیں ہیں، آپس میں ہی دست و گریباں۔ جب کہ ہمارے منتخب نمائندے اس وقت حکمران جماعت سے جان چھڑوا رہے ہیں، مختلف حیلوں بہانوں کے ساتھ، نئے نعروں کے ساتھ مختلف پارٹیوں میں شمولیت اختیار کررہے ہیں تاکہ جیسے بھی ہو، اقتدار کا نشہ جو منہ کو لگ چکا ہے، وہ خوراک انہیں ملتی رہے۔
عوامی خدمت و خیر خواہی کےلیے ان کچے گھڑوں کو پانچ سال ملے تھے جو موج مستی میں گزر گئے۔ اب اگلی منزل تک پہنچنے کےلیے انہیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے ووٹ بینک۔ پاکستانی سیاست کو نظر میں رکھتے ہوئے کیونکہ یہاں کوئی پارٹی مسلسل دوسری بار الیکشن جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی اور خاص طور پر دیہی حلقوں سے پچھلا الیکشن جیتنے والا امیدوار یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ ہر گاؤں میں دو چوہدری تو ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کی مخالفت بھی کرنی ہے تو چلو پارٹی بدلنے کے ساتھ ساتھ دوسرے دھڑے سے تعلقات بہتر کرتا ہوں کیوں کہ سابقہ حمایتی تو اس وقت بہت سی باتوں پر ناراض بھی ہوگا کہ فلاں خوشی/ غمی میں نہیں آئے، ساتھ میں تھانہ کچہری بھی نہیں گئے، لوگوں کو ملازمتیں دلوانے میں بھی کچھ ناکامی کا سامنا رہا ہے تو نئے حمایتی کو نئے وعدوں کے ساتھ ’’آوے ہی آوے فلاں چودھری آوے ہی آوے‘‘ کے نعروں پر لگا دیا جاتا ہے۔
الیکشن سے ذرا پہلے کچھ اس انداز سے سیاستدانوں کے ضمیر جاگتے ہیں کہ انہیں پارٹی بدلنے میں ہی ملک اور عوام کی بھلائی نظر آتی ہے۔ اپنے لیے تو وہ کچھ بھی نہیں کرتے، بس دل میں غریب عوام کا دردِ بیکراں ہوتا ہے اور گلی گلی گھومنے کا وقت۔
پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں سول و ملٹری کشمکش سب سے نمایاں رہی ہے لیکن ان حالات میں بھی بہت سے گھڑے ایسے تھے جو حد درجہ چکنے تھے۔ انہوں نے اپنے خاندان بھی سنوارے اور پارٹیاں بدل بدل کر اپنی سیٹ بھی جیتتے رہے۔ اس سب کے درمیان وہ بیک وقت سیاستدانوں اور اسٹیبلیشمنٹ سے اپنے تعلقات بھی بحال رکھنے میں کامیاب رہے۔
پارٹی تبدیل کرتے ہوئے ہر سیاستدان کا کہنا ہوتا کہ اصولی طور پر علیحدہ ہورہا ہوں، پارٹی سربراہ سے یا ممبران سے کچھ اختلافات تھے، تحفظات تھے جو دور نہیں کیے گئے وغیرہ؛ اور میں اب ملک اور عوام کے بہتر مستقبل کی خاطر چپ کرکے نہیں بیٹھ سکتا تھا اس لیے اس کیمپ کو خیرباد کہتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے خیرخواہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوں۔
پچھلے بیس برسوں کی پاکستانی سیاست میں سیاستدانوں کی طرف سے جتنی تیزی سے پارٹیاں تبدیل کرنے کا رجحان نظر آرہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے اس معاملے میں بھی قانون سازی کی اشد ضرورت ہے کہ ایک مدت مخصوص کردی جائے جس سے پہلے پارٹی تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ اس میں بہت سی قانونی موشگافیاں ہوں گی لیکن یہ ضروری ہے۔ جب سول عدالتوں میں مقدمات بیس بیس سال تک چل سکتے ہیں اور دونوں فریقین کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ثبوت عدالت میں پیش کیے جائیں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوسکے تو ہمارے یہ قانون بنانے والے نمائندے اسمبلیوں اور پارٹیوں میں بیٹھ کر اتنی مزاحمت کیوں نہیں کرسکتے کہ اپنا مؤقف صحیح طور سے پیش کرسکیں اور پارٹی میں اپنے لیے جگہ مضبوط بنائیں۔