تحریر : ابنِ نیاز
آئو اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں واقعی مدہوشی ہی ہوتی ہے جو انسان کو خدا بنادیتی ہے نہ کہ یاد دلاتی ہے۔ اگر یہ مدہوشی نہ ہوتی تو انسان بتوں کو سجدہ کیوں کرتا۔ انسان درختوں، حیوانوں کو اپنا خدا کیوں مانتا۔ یہ گنیش بمعنی ہاتھی، یا بجرنگی یعنی دو دماغ والا بندر یا پھر کالا پتھر انسان کے سجدے کے لائق کیوں ہوتا۔ یہ مدہوشی ہی تو ہے جو انسان کو انسانیت کی معراج عرش سے پاتال میں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرادیتی ہے۔اگر یہ مدہوشی نہ ہوتی توانسان انسان کو سجدہ کیوں کرتا۔کبھی یہ انسان فرعون نمبرود کے روپ میں خدائی دعویدار ٹھہرا تو کبھی مردو ملعون مرزا قادیانی کے روپ میں مجدد سے مہدی اور پھر نبوت کا دعویدار ہوا۔ اور پھر یہاں تک بھی ایک قول کے مطابق خدائی دعویٰ بھی کر بیٹھا تھا۔یہ مدہوشی ہی تھی جس نے اشرف المخلوقات کو ذلالت کے گہرے گڑھے میں گرا دیا۔ جب اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ ” ان کے دلوں پر مہر ہے اور ان کے کانوں پر مہر ہے اور انکی آنکھوں پر پردہ ہے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔”
کچھ ہی آیات آگے فرماتے ہیں۔۔” وہ اندھے بہرے گونگے ہیں اور وہ (ہدایت کی طرف) نہیں لوٹیں گے”۔ جب کسی انسان کے ساتھ یہ سب کچھ ہو تو وہ کیسے عالمِ ہوش میں ہو سکتا ہے۔ یقینا وہ مدہوش ہی ہو گا، اور اس مدہوشی میں کوئی خود کو یاد دلائے گا کہ وہ بھی خدا کو ماننے والا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا شعر سے واضح ہے۔ یا پھر وہ مذکورہ بالا مذموم حرکات کرے گا اور ثابت کرے گا وہ عقل و خرد سے بیگانہ ہے۔ یہ سب باتیں لکھنے کی وجہ جو چیز بنی وہ گزشتہ دنوں ایک چھوٹی سی کوئی چار پانچ منٹ کی ایک مختصر سی ویڈیو بنی۔ جس میں ایک ظاہر حالت میں مسلمان شخص کھڑا ہے اور مختلف لوگ آرے ہیں اور اسکے پائوں کے قریب سجدہ کرتے ہیں۔ وہ شخص جب تک ان کی پیٹھ پر تھپکی نہیں دیتا، تب تک وہ اسی طرح سجدے میں پڑے ہوتے ہیں۔ پھر وہ شخص خود ایک طرف رخ کرکے سجدہ کرتا ہے اور اس وقت جو لوگ اسکے سامنے کھڑے ہوتے ہیں وہ بھی اسکے ساتھ سجدہ کرتے ہیں۔
اب خدا جانتا ہے یا وہ خود کہ وہ کس کو سجدہ کر رہا تھا۔ اس ویڈیومیں کچھ لوگ اور بھی نظر آرہے ہیں جو ایک طرف ہو کر کھڑے ہیں۔ لیکن جس طرح سجدہ کرنے والے لوگ سجدہ کرنے کے بعد اس طرف جا کر کھڑے ہو تے ہیں جہاں پہلے سے لوگ کھڑے ہیں تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ لوگ بھی سجدہ کرکے ہی وہاں جا کر کھڑے ہوئے ہوں گے۔ استغفراللہ۔ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں۔” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اسلیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری ہی عبادت کریں”۔ اب یہ عبادت کس قسم کی ہے، کیا صرف نماز کا نام ہے؟ نہیں۔ بلکہ ایک حدیث کے مطابق اللہ پاک نے فرشتوں کو پیدا کیا۔ ان فرشتوں میں سے جو پہلے دن سے اللہ کا ذکر حالت قیام میں کر رہے ہیں وہ تا قیامت اسی حالت میں ذکر کرتے رہیں گے۔جو حالت رکوع میں ہیں ، جو حالت سجدہ میں ہیں، قعدہ میں ہیں، تا قیامت انہی حالتوں میں اللہ کی عبادت یا ذکر میں مصروف رہیں گے۔ تو یہ عبادت سجدہ کی بھی ہو سکتی ہے، قیام کی بھی اور رکوع کی بھی۔ تو جب سجدہ صرف خدا کے لیے ہے تو اے نادان انسان! پھر کیوں اس انسان نما شیطان کو سجدہ کرتے ہو۔
اس کی آخرت تو گئی پل صراط سے نیچے بھڑکنے والی آگ کے سب سے نچلے طبقے میں، تم کیوں اپنی آخرت تباہ کرتے ہو۔ اسکی نجات بھی صرف اسلیے ممکن ہے کہ اگر موت سے پہلے ، عالمِ نزع سے پہلے وہ اللہ سے توبہ کر لے، اور اپنے کو سجدہ کروانے والوں کو بھی توبہ کروائے اور ان کی توبہ قبول بھی کروائے، تو شاید۔۔ ورنہ اس کی توبہ شاید قبول نہ ہو گی۔ کیونکہ ایک کثیر تعداد کو اس نے شرک میں مبتلا تو کرا دیا۔ اگر وہ خود تو توبہ کر لیتا ہے لیکن اپنے پیرو کاروں تک یہ پیغام نہیںپہنچاتا کہ اس نے جو کچھ کیا وہ ظلمِ عظیم یعنی شرک تھا (بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ القرآن) تو قیامت کے دن ان پیروکاروں کے گناہ شاید اسکے گلے کا طوق بن جائیں گے۔ یہ تو میں نے صرف ایک ویڈیو کی بات کی ہے۔ ورنہ انٹرنیٹ کی دنیا میں بہت سی ایسی ویڈیوز مل جائیں گی، جس میں جاہل لوگ (دین اسلام کی تعلیمات سے جاہل) اپنے اس نام نہاد مرشد پر کٹ مرنے کو تیار ہو جائیں گے، اگر ان کے خلاف کوئی بات کی جائے۔ کوئی بیس سال پہلے بری امام کے مزار پر جانا ہوا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ لوگ ان کے مزار کی طرف رخ کر کے سجدہ کر رہے ہیں۔ میرے ساتھ میرے ایک بڑے کزن تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ تو صریح شرک ہے۔ کیونکہ سجدہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات کو جائز ہے۔ میری یہ بات وہاں ایک بندے نے سن لی۔ وہ تو جیسے میری جان لینے کے درپے ہو گیا۔
کہنے لگا اگر بندے کو سجدہ جائز نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیتے؟ جاہل کی دلیل دیکھیں۔ میں نے کہا کہ پہلی بات وہ اللہ کا حکم تھا اور صرف ایک بار کے لیے اور اُس وقت کے لیے تھا۔ دوسری بات وہ سجدہ، سجدئہ عبادت نہیں تھا،بلکہ سجدہ تعظیمی تھا ۔ اگر سجدہ تعظیمی نہ ہوتا تو شیطان ہر گز انکار نہ کرتا۔ کیونکہ اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعے انسان کا اشرف المخلوقات ہونا ثابت کر دیا تھا، فرشتوں پر بھی اور جنات پر بھی۔تو شیطان جو کہ جنوں میں سے تھا، وہ یہ بات جان گیا تھا کہ یہ انسان کو اس کی عظمت کی خاطر اللہ کے حکم سے سجدہ کرنا ہے۔ تو بابا نے یہ بات تو سن لی کہ یہ اللہ کا حکم تھا اور جو میں نے آگے کہا، اس کو دونوں کانوں کے بیچ میں جگہ نہ دی۔ بندوں کو میرے پیچھے لگا دیا۔ سب مل کر کہنے لگے کہ ہمارے بڑے بوڑھے پڑھے لکھے تھے۔ وہ بھی اسی طرح کر تے تھے۔ پھر اس طرح اگر ہم انکے مزار کو سجدہ نہ کریں تو ہماری مرادیں پوری نہیں ہوتیں۔ میں نے کہا کہ تم لوگ بھی مشرکین مکہ جیسی بات کرتے ہو۔ وہ بھی یہی کہتے تھے کہ ان کے بڑے ان لات منات عزٰی کو سجدہ کرتے آئے ہیں، تو وہ کیوں نہ کریں۔بس پھر کیا تھا، اگر میرا کزن مجھے نہ کھینچتا توآج میں یہ تحریر شاید شاید نہ لکھ رہا ہوتا۔
شرک کتنی بری چیز ہے، کتنا عظیم ظلم ہے کہ اللہ پاک سورہ انعام میں اٹھارہ انبیاء کرام کا ذکر کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں۔”جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم سے مخلوط نہیں کیا ان کے امن (اور جمعیت خاطر) ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔اور یہ ہماری دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم کے مقابلے میں عطا کی تھی۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کردیتے ہیں۔ بیشک تمہارا پروردگار دانا اور خبردار ہے۔اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب بخشے۔ (اور) سب کو ہدایت دی۔ اور پہلے نوح کو بھی ہدایت دی تھی اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلا دیا کرتے ہیں۔اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو بھی۔ یہ سب نیکوکار تھے۔اور اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو بھی۔ اور ان سب کو جہان کے لوگوں پر فضلیت بخشی تھی۔اور بعض بعض کو ان کے باپ دادا اور اولاد اور بھائیوں میں سے بھی۔ اور ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھایا تھا۔ یہ خدا کی ہدایت ہے اس پر اپنے بندوں میں سے جسے چاہے چلائے۔ اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے سب ضائع ہوجاتے۔ “(آیت ٨٢ تا ٨٨)۔ اگر وہ لوگ شرک کرتے۔۔۔کون لوگ؟ اس کی تشریح اگلی آیت نمبر ٨٩ میں ہے ۔ ارشاد ہوا۔
“یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب اور حکم (شریعت) اور نبوت عطا فرمائی تھی۔ اگر یہ (کفار) ان باتوں سے انکار کریں تو ہم نے ان پر (ایمان لانے کے لئے) ایسے لوگ مقرر کردیئے ہیں کہ وہ ان سے کبھی انکار کرنے والے نہیں۔” یعنی یہ لوگ انبیاء کرام میں سے تھے۔ جب اللہ پاک انبیاء کے بارے میں یہ فرماتے ہیں تو ایک عام اللہ کا بندہ جب شرک کرے گا تو اسکی مغفرت کیسے ہو گی۔ کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو فرمایا۔ “اے بیٹے۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔” اور ظلم کیا چیز ہے؟ ظلم بری چیز ہے۔ ظلم کے معنی زیادتی کے ہیں۔ ناانصافی بھی ظلم ہے۔ جو کام انصاف کے خلاف ہو اور جس میں کسی کے ساتھ زیادتی کی گئی وہ ظلم ہے۔ ظلم زبان سے بھی کیا جاسکتا ہے، ہاتھ سے بھی اور کسی طرح بھی۔ یعنی جب آپ اللہ کو مانتے ہوئے بھی اس کی ذات میں کسی کوشریک ٹھہرائیں تو یہ ظلم ہے۔
یہ آپ اپنے ساتھ ظلم کرتے ہیں کیونکہ اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ جہنم کی آگ کو دعوت دے رہے ہیں اور روز بروز دے رہے ہیں، یعنی زیادتی میں بڑھتے جاتے ہیں۔ اور جو شرک کرتے ہیں مندرجہ بالا آیت کے مطابق ان کے سب اعمال (ظاہر ہے نیک اعمال کی بات ہو رہی ہے) ضائع ہو جاتے ہیں۔ اور جو شخص شرک کرتا ہے اللہ پاک اس پر بہشت کو حرام کر دیتے ہیںاور اسکا ٹھکانہ دوزخ میں کر دیتے ہیںاور اس طرح کا ظالموں کا پھر کوئی مدد گار نہیں ہوتا (یعنی قیامت میں کوئی مدد نہیں ملے گی)۔۔ سورة المائدہ۔ آیت ٧٢۔حضرت ابوہریر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کی ایک مخصوص دعا ایسی ہوتی ہے جس کو درجۂ قبولیت حاصل ہوتا ہے
ہرنبی نے ایسی دعا دنیا کے اندر ہی کر لی ہے لیکن میں نے وہ دعا ابھی تک نہیں کی وہ دعا میں نے اپنی امت کی شفاعت کے لیے چھوڑ رکھی ہے۔ لیکن یہ دعا کس کے حق میں قبول ہو گی؟ پڑھیے:فھی نائلة ان شاء اللہ من مات من امتی لایشرک باللہ شئیا (صحیح مسلم) تو وہ دعا اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری امت میں سے ہر اس شخص کو پہنچ سکتی ہے جس کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرایا۔ اللہ پاک ہمیں ہر قسم کے شرک سے محفوظ فرمائے، آمین، ثمہ آمین۔
تحریر : ابنِ نیاز