لاہور: محکمہ ہاؤسنگ اربن ڈویلپمنٹ اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے اعلیٰ افسران کی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کے باعث 21 اضلاع کے 1743 دیہات خادم پنجاب آب صحت پروجیکٹ کے تحت پینے کے صاف پانی سے محروم رہ گئے اور مالی سال ختم ہونے کے قریب ہونے کے باعث 9 ارب روپے کا بجٹ سرنڈر کرنا پڑا۔
ستم بالائے ستم یہ کہ نیب کے خوف سے آب صحت پروگرام کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کا چارج دو تین افسروں کو دینے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن افسروں کے انکار پر یہ عہدہ فٹ بال بنا رہا۔ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کو ملنے والی تفصیلات کے مطابق محکمہ ہاؤسنگ اربن ڈویلپمنٹ کے تحت خادم پنجاب آب صحت پروجیکٹ کے تحت پنجاب کے 21 اضلاع کے 1743 دیہات کو پبلک ہیلتھ کی فنکشنل رورل واٹر سکیم کے نام پر 1807 فلٹریشن پلانٹس نصب کئے جانا تھے، جن اضلاع کے دیہات میں یہ منصوبہ شروع کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا ان میں اٹک، راولپنڈی، جہلم، چکوال، میانوالی، بھکر، خوشاب، سرگودھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ، چنیوٹ، جھنگ، گجرات، گوجرانوالہ، حافظ آباد، سیالکوٹ، لاہور، نارووال، منڈی بہاؤ الدین، پاک پتن، شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب شامل تھے۔ آب صحت پروگرام کو 8 پیکیجز میں تقسیم کیا گیا، فوری ڈلیوری اور کنسٹرکشن کی غرض سے ہر پیکج 7 ملین امریکی ڈالر سے ساڑھے 12 ملین امریکی ڈالر تک کا تھا، جس میں تعمیر اور بعد از تکمیل 5 سالہ مرمت بھی شامل تھی۔ حکومت پنجاب نے اگست 2017ء میں 9 ارب 70 کروڑ روپے اس منصوبے کے لئے مختص کئے اور یہ رقم ہاؤسنگ اربن ڈویلپمنٹ کو ٹرانسفر بھی کر دی گئی۔
اس حوالے سے سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ 7 اگست 2017ء کو پاکستان کے کئی قومی اخبارات میں پروجیکٹ ڈائریکٹر اور متعلقہ سٹاف کی بھرتی کے اشتہارات بھی شائع ہوئے جس میں واضح طور پر پروجیکٹ ڈائریکٹر سے نچلے عملے تک کی تعلیمی قابلیت اور تجربہ بھی لازمی قرار دیا گیا تھا لیکن محکمہ پی ایچ ای ڈی اینڈ ایچ یو ڈی کے سیکرٹری کیپٹن (ر) خرم آغا نے یہ اشتہار منسوخ کردیا اور محکمے کے ایک جونیئر افسر، قائم مقام ایڈیشنل سیکرٹری (ٹیکنیکل) سلمان یوسف کو اون پے سکیل میں آب صحت پروگرام کا پروجیکٹ ڈائریکٹر لگا دیا گیا۔ مذکورہ افسر کے پاس ایڈیشنل سیکرٹری ٹیکنیکل کے ساتھ ساتھ ڈپٹی ڈائریکٹر نارتھ پی ایچ ای ڈی اور پراجیکٹ ڈائریکٹر آب صحت کے اضافی چارج بھی ہیں۔ اس منصوبے کے تحت سلمان یوسف کو 8 پیکیجز کی بڈز موصول ہوئیں، ان میں سے 2 پیکیجز انجینئرنگ کاسٹ اسٹیمیٹ سے زیادہ تھے، 2 کی بڈ برابر اور بقایا 4 کی 5 سے 19 فیصد انجینئرنگ کاسٹ سے کم تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سلمان یوسف نے 2 پیکیجز کا ٹھیکہ کے ایس بی کمپنی اور ایک کا ٹھیکہ امین برادرز کے حوالے کر دیا گیا جبکہ باقی 5 پیکیجز جو چینی فرموں کے نام پر تھے روک لئے گئے، جن پیکیجز کے لیٹر آف انٹینٹ ایشو کئے جا چکے تھے، ان کے کنٹریکٹ پر دستخط موخر کر دیئے گئے۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ محکمہ کے سیکرٹری اور پی ڈی کو اس امر کا اندازہ ہو گیا تھا کہ آب صحت کے تحت فلٹریشن پلانٹس لگانے کا ٹھیکہ جن ریٹس پر دیا گیا ہے وہ صاف پانی پروجیکٹ کی نسبت چالیس فیصد کم ہے۔ صاف پانی پروجیکٹ میں بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کے انہی الزامات کے تحت آج کل نیب میں کیس زیر سماعت ہے جس میں نیب حکام نے حمزہ شہبازشریف اور ان کے بہنوئی علی عمران کو بھی طلب کر رکھا ہے۔ اس امر سے خوفزدہ ہو کر محکمہ کے ذمہ داران نے سلمان یوسف سے فوری طور پر پروجیکٹ ڈائریکٹر کا چارج واپس لے لیا۔ وہ اگست 2017ء سے اپریل 2018ء تک آب صحت پروگرام کے پی ڈی کے منصب پر فائز رہے۔ نیب کی طرف سے صاف پانی پر شروع کی گئی کارروائی سے خوفزدہ ہو کر پی ایچ ای ڈی کے اعلیٰ حکام نے پروجیکٹ ڈائریکٹر آب صحت کا چارج چیف انجینئر ساؤتھ سلیم رضا کے حوالے کیا اور اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا لیکن سلیم رضا نے چارج لینے سے معذرت کر لی اور موقف اختیار کیا کہ آب نوشی کی یہ سکیمیں نارتھ زون میں آتی ہیں جو میری حدود سے باہر ہیں اس لئے میں یہ چارج نہیں لے سکتا۔ اس کے بعد پروجیکٹ ڈائریکٹر کا چارج چیف انجینئر نارتھ محمد شاہد اظہر کے حوالے کیا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ معاملات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے محکمہ کے سیکرٹری سلمان یوسف نے چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ پنجاب کو ایک آفیشل نوٹ لکھ کر بھجوایا کہ چونکہ مالی سال ختم ہونیوالا ہے اور ہم نے ابھی تک آب صحت پروگرام کی سکیمیں شروع نہیں کیں اس لئے 9 ارب روپے سرنڈر کر کے اگلے سال میں ڈال دیئے جائیں۔ اب جبکہ حکومت ختم ہونے میں صرف 2 روز باقی ہیں، 1743 دیہات کے لاکھوں افراد سراپا سوال ہیں کہ ہمیں پینے کے صاف پانی سے محروم رکھنے کے ذمہ داران کون ہیں اور ان کے خلاف کون کیا کارروائی کرے گا۔ واضح رہے کہ خادم پنجاب آب صحت پروگرام جون 2018ء میں مکمل کرنے کا حتمی اعلان کیا گیا تھا اور اس حوالے سے تمام تر اقدامات بھی مکمل کئے جا چکے تھے