تحریر :وقارانساء
سانحات نے تو گویا پاک سرزمی کو ہی اپنی آماجگاہ بنا لیا-یکے بعد دیگرے ہوتے یہ سانحات عوام پر وقتی طور پر سکوت مرگ طاری کر جاتے ہیں- لیکن بڑھتا ہوا وقت اور حکومت ان پریشانیوں سے نجات دلانے میں ناکام رہے ہیں -کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ سانحہ قصہ پارینہ بن جاتا ہے کچھ وقت تو واویلا ہوتا ہے حکومت کے بڑے دعوے اور بیانات سامنے آتے ہیں-
کچھ وقت سوال اٹھتے ہیں نتيجہ کچھ نہیں نکلتا؟نہ ہی کچھ بہتری کی صورتحال ہوتی ہے-پھر وہ آوازیں دب جاتی ہیں یا دبا دی جاتی ہیں اس کے بعد اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ سانحہ کارسازمیں کتنی بے گناہ جانیں چلی گئیں –گھر اور خاندان اجڑگئے –
بینظیير بھٹو جیسی بڑی سياسی یڈر کے قاتلوں کا ابھی تک پتہ نہیں چلا – بڑے عرصہ سے دہشتگردی اور جرائم کے بے شمار واقعات کا بھاری بوجھ یہ دھرتی ماں اپنے سينے پر لئے ہوئے ہے-اور پوچھ رہی ہے وقت کے حکمرانوں سے کہ کب یہ بوجھ اتارو گے ميرے سينے سے ؟ کب آزاد کرو گے ميرے بچوں کو اس خوف وہراس سے کہ جس نے ان کا سکھ چين تباہ کر ديا –کب سکون اور سکھ کی سانس انہيں لينا انہیں نصیب ہوگی
سانحہ مادل ٹاؤن کو آپ فراموش کر سکتے ہیں ؟ کہ جس میں بے گناہ بچے اور خواتين کو نشانہ بنايا گیا-لوگ خون کے آنسو روئے- دھرتی ماں کے سينے پر پھر بے گناہوں کا خون ناحق ٹپکنے لگا اور اس ظلم کو کرنے والے پھر سے بچ نکلے- کیایہ قانون کے شکنجے میں نہیں آسکتے ؟ حکومت نے اس سلسلے میں کیا کردار ادا کیا ؟
سانحہ پشاور نے نہ صرف پاکستان کے لوگوں کو بلکہ پوری دنیا کو رلا دیا –لوگ خون کے آنسو روئے-سارے ملک کا ماحول کافی عرصہ سوگوار رہا –ھر دل غم سے بوجھل رہا –ان معصوموں پر جس بے دردی سے گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی-ہردل تڑپ اٹھا- سانحہ شکار پور نے پھر سے دھرتی ماں کو تڑپا دیا –
کتنے گھر پھر اجڑے کتنے بے گناہ پھر دہشت گردی کی بھينٹ چڑھ گئے- اور پھر سانحہ بلديہ ٹاؤن جہاں بھتہ نہ ملنے پر تين سو انسان اپنی جان سے ھاتھ دھو بیٹھے –اتنا سفاکانہ قدم –انسانی جانیں اور املاک تباہ- گولہ بارود سے تباہ ہوتی یہ دھرتی ماں يہ شہیدوں کے خون ناحق کی سرخی لئے ہوئے تڑپی دھرتی ماں پکار رہی ہے آخر کتنے لاشے دفن ہوں گے ميری گود میں کتنے خون کی نہریں بہیں گی
کتنا گولہ بارود اتارو گے ميرے سينے میں!!! کيا حکومت اپنے اختیارات اور منصب کو ظالموں کے خلاف استعمال نہیں کر سکتی ؟ ملک کی سلامتی اور بقاءکے لئے کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی جاتی ملک کے مفاد کی بجائے سیاستدانوں کو اپنے مفادات مقدم ہیں- يہ اپنی حرص وہوس کے لئے بے چين ہیں-
ايک دوسرے پرالزامات لگاتے ہوئے تہذيب وتميز کی ساری حدود پھلانگ جاتے ہيں- خواتین کے لئے نازیبا الفاظ کا استعمال اخلاقی گراوٹ کو ظاہر کرتا ہے –جب ملک ایسے مسائل اور حالات میں گھرا ہوا ہے –اس پر غور کرنے کی بجائے ھمارے سیاست دان اپنے کرتب مداری کی طرح دکھا رہے ہیں
آج دھرتی ماں تقاضہ کر رہی ہے کہ کسی واقعہ میں ملوث لوگ کوئی ہوں کسی جماعت سے ہوں انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے-قانون غريبوں کے لئے ہی نہ ہو بلکہ با اثر لوگ بھی اس کی دسترس میں ہوں
تحریر :وقارانساء