پیرس (ویب ڈیسک) خالق کائنات نے امت مسلمہ پر احسان فر ماتے ہوئے عید الفطر اور عید الاضحی جیسے خوشی کے مقدس تہوار عطاء فرمائے جن کے آتے ہی ہر مسلمان کے دل میں قدرتی طور پر جوش و ولولہ پیدا ہوجاتا ہے۔ عید الفطر کے دن اللہ تعالیٰ بندوں کو روزوں اور عبادت رمضان کا انعام عطا ء فرماتے ہیں، نیز دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ملائکہ کے سامنے فخر کرتے ہیں اور انہیں مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ”اے میرے فرشتو! اس اجیر (مزدور) کی جزا کیا ہے جس نے اپنے زمہ کا کام پورا کر دیا؟فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اس کی مزدوری اسے پوری پوری دے دی جائے۔ اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ اے میرے ملائکہ ! میرے ان بندوں نے اپنا وہ فرض پورا کر دیا جو میں نے ان پر عائد کیا تھا۔پھر اب یہ گھروں سے (عید کی نماز ادا کرنے اور) مجھ سے گڑ گڑا کر مانگنے کے لیے نکلے ہیں۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس ماہ مبارک کی بر کتوں ، رحمتوں کو سمیٹا، گناہوں کو بخشوایا، قیام اللیل کیا، دن کو روزے رکھے، سب سے قطع تعلق ہوکر اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کیا،صبر و ایثار کو اپنایا ، مساجد کو آباد کیا، ، قرآن مجید کوسنا اور سنایا، اپنی جبینوں کو اللہ ربّ العزت کے حضور جھکایا، اپنی زندگیاں، شب روز، معاملات، معمولات، کاروبار، گھربار کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کا عہد کیا۔ جھلسا دینے والی گرمی اور بے تاب وبے قرار کر دینے والی بھوک وپیاس کو برداشت کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے رمضان المبارک کے مہینے میں محنت ومشقت کی۔ عید الفطر ماہ رمضان کے ان روزوں کا انعام ، اور امت مسلمہ کے مسلمانوں کے لئے خوشیوں کی نوید ہے ۔ ہمیں احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے اس دن کو اپنے گناہوں سے مغفرت کا دن بناناچاہیے۔ اور عید سعید کی خوشیوں کے لمحات میں ایسے ہر کام سے بچنا چاہیے جو شعائر اسلام کے منافی ہو۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں۔ ”عید ان کی نہیںجنہوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو زیب تن کیا، بلکہ حقیقتاً عید تو ان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے ڈر گئے۔ عید ان کی نہیں جنہوں نے بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا عید تو ان کی ہے جنہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔”
عید کا دن جہاں پیار محبت اور خوشیاں بانٹنے کا دن ہے وہاں نفرتوں ، ملامتوں اور ناراضگی کے مٹانے کا بھی دن ہے ، عید کے موقع پر نفرتوں کو بھول کر ، رنجشوں کو ترک کرکے عزیز رشتہ داروں کو گلے سے لگا نا چاہیے، نہ معلوم اگلی عید کے موقع پرہمیں ان کی یا انہیں ہماری رفاقت نصیب ہو یانہ ہو۔عید کے موقع پر والدین کو خصوصی وقت دینا چاہیے، کیونکہ زندگی کے انتہائی تیز رفتار شب و روز میں اکثر بزرگوں کو ہم خرید کر ہر چیز تو دے دیتے ہیں اور اشیائے صرف کا انبار بھی لگا دیتے ہیں مگر ایک چیز جسکی شدید کمی ہے اور وہ وقت ہے جو ہم لوگ اپنے والدین اور بزرگوں کو نہیں دے پاتے۔ عید چونکہ ماہ صیام میں تزکیہ النفس کا انعام ہے، اس لئے جو خوشی اور مسرت کی کیفیت اس تہوار میں پائی جاتی ہے وہ کسی اور تہوار میں نہیںلیکن ہمارے بدلتے رویوں اور مصنوعی ماحول کی وجہ سے عید کی حقیقی خوشیاں مانند پڑ جاتی ہیں۔ عید کے موقع پر حقیقی خوشی ایک دوسرے سے ملنے اور مل بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہے لیکن ہم نے باقاعدہ ملنے کے بجائے موبائل کے ذریعے پیغامات کو کافی سمجھ لیا ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرنا چاہئے بلکہ عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے عید کے پرمسرت لمحات محروم طبقات کے سنگ گزارنا چاہیے۔ ہسپتالوں میں داخل مریضوں، چائلڈ ہوم اور یتیم خانوں میں پرورش پانے والے بچوں، اولڈ ہاؤس میں زندگی کے دن پورے کرنے والے بزرگوں، نابینا و معذور افراد کے اداروں اور جیلوں میں پابند سلاسل قیدیوں کے ساتھ عید مناکر عید کی مسرتوں کو دوبالا کیا جا سکتا ہے۔