تحریر: ملک جمشید
یہ قصہ وینس کے ایک نواحی قصبے کی ایک مشہور کافی شاپ کا ہے۔ جہاں ایک گاہک داخل ہوا اْس نے شاپ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور ایک میز کو خالی پا کر وہاں بیٹھ گیا۔ اس نے بیٹھتے ہی بیرے کو آواز دیکر بلایا اور اپنا آرڈر یوں دیا:”دو کپ کافی لاؤ، اور اْن میں سے ایک وہاں دیوار پر۔” بیرے نے آرڈر کی تعمیل کرتے ہوئے محض ایک کافی کا کپ اس کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس صاحب نے کافی کا وہ ایک کپ نوش کیا مگر پیسے دو کے ادا کئے۔
اس گاہک کے جاتے ہی بیرے نے دیوار پر جا کر ایک ورقہ چسپاں کر دیا جس پر لکھا تھا،”ایک کپ کافی۔” کچھ دیر کے بعد وہاں دو اور گاہک آئے، جنہوں نے تین کپ کافی کا آرڈر دیا، دو ان کی میز پر اور ایک دیوار پر۔ پیئے تو انہوں نے دو ہی کپ تھے، مگر پیسے تین کپ کے دئیے اور چلتے بنے۔ ان کے جانے کے بعد بھی بیرے نے ویسا ہی کیا، جا کر دیوار پر ایک اور ورقہ چسپاں کردیا جس پر لکھا تھا:”ایک کپ کافی۔” بہت سے لوگ سوچ رہے ہونگے کہ یہ کیسا دستور ہے؟ اور کیوں ہر آنے والا گاہک اپنے علاوہ ایک کپ اضافی منگواتا ہے لیکن پیتا ایک کپ ہے، جبکہ جاتے ہوئے ادائیگی دو کپ کی کرتا ہے۔
اس کا جواب بہت حیرت انگیز اور سوچنے پر مجبور کرنے والا ہے،اب مزید دیکھتے ہیں۔۔۔!!کچھ ہی دیر کے بعد اس کافی شاپ میں ایک ایسا شخص داخل ہوا جس کے کپڑے اس کافی شاپ کی حیثیت اور یہاں کے ماحول سے قطعی میل نہیں کھا رہے تھے۔ غربت اس شخص کے چہرے سے عیاں تھی۔ اس شخص نے بیٹھتے ہی پہلے دیوار کی طرف دیکھا اور پھر بیرے کو بلایا اور کہا؛”ایک کپ کافی دیوار سے لاؤ۔”بیرے نے اپنے روایتی احترام اور عزت کے ساتھ اْس شخص کو کافی پیش کی جسے پی کر یہ شخص بغیر پیسے دیئے چلتا بنا۔ اْس کے جانے کے بعد بیرے نے دیوار پر لگے ہوئے ورقوں میں سے ایک ورقہ اتار کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔
اب جواب سمجھ میں آیا، کہ نہیں۔۔۔؟؟ کیا، ابھی بھی نہیں پتہ چلا۔۔!!! بات اصل میں یوں ہے کہ اِس قصبے کے امراء اور صاحبِ حیثیت لوگوں نے خود سے ایک روایت بنائی تھی کہ جب بھی ہم میں سے کوئی شخص اس کافی شاپ میں کافی پیئے گا ایک کپ غربائ، مساکین اور بے کس لوگوں کے لیے مخصوص کرے گا۔ تاکہ وہ بھی اِس سے لطف اندوزہو سکیں۔
اگر دیکھا جائے تو کافی نہ تو ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہمارے لئے واجبات زندگی کی طرح کوئی اہم چیزہے۔ بات تو صرف اس سوچ کی ہے کہ کسی بھی نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے انسان اْن لوگوں کا بھی خیال کر لے جو اس نعمت کو اتنا ہی پسند کرتے ہیں جتنا کہ وہ انسان خودکرتاہے، لیکن وہ مجبورلوگ اِسے حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
اس بیرے کے کردار کو دیکھیئے جو صاحب حیثیت لوگوں اور ضرورتمندوں کے درمیان رابطے کا کردار نہایت خندہ پیشانی اور کھلے دل کے ساتھ لبوں پر مسکراہٹ سجائے کر رہا ہے۔اس ضرورتمند کو دیکھیئے جو اس کافی شاپ میں اپنی عزت نفس کو مجروح کیئے بغیر ہی داخل ہوتا ہے، اور اسے یہ پوچھنے کی قطعی ضرورت پیش نہیں آئی کہ آیا اْس کو ایک کپ کافی مفت میں مل سکتا ہے یا نہیں۔ اس نے دیوار پر دیکھا، کافی کا آرڈر موجود پا کر، یہ پوچھے اور جانے بغیر ہی کہ یہ کپ کس شخص کی طرف سے اس کو دیا جا رہا ہے، اپنے لئے ایک کپ کا آرڈر دیا، ایک عام عزت دار شہری کی طرح کافی کو سرور کے ساتھ پیا اورخاموشی سے چلا گیا۔
جب ہم اس مذکورہ بالا کہانی کی جزئیات کو جانیں گے تو ہمیں اس کہانی کے کرداروں کے ساتھ ساتھ اْس دیوار کے کردار کو بھی یاد رکھنا پڑے گا جو اس قصبے کے دردِ دل رکھنے والے باسیوں کی عکاس بنی ہوئی ہے، اور ہر آنے والے مجبور اور بے کس انسان کے چہرے پر خوشی اور مسکراہٹ کا باعث بنتی ہے۔
اگرہرانسان دوسرے انسان پراپنے مال کوجتلانے کی روایت کوختم کرنے کی کوشش کرے اورکسی بھی آدمی کی مددچھپ چھپاکریاکسی ایسے طریقے سے کرے جس سے اس ضرورت مندکی عزت نفس مجروح نہ ہو ایسی مددکواللہ تعالیٰ بھی پسند فرماتے ہیں اور مدد حاصل کرنے والے کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔
تحریر: ملک جمشید