تحریر : حامد تابانی
کہتے ہیں کہ کسی ایک فرد کی غلطی بہت سے لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ ایک خاندان کے بزرگوں کی غلطی ان کے بال بچوں کے لیے وبال جان بنتی ہے۔ لیڈروں کے غلط فیصلے قوموں کی زوال کا باعث بنتے ہیں۔لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بن جاتی ہے اور آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کو برے الفاظ میں یا د کرتے ہیں۔
سڑک پر چلنے کا پہلا حق پیدل جانے والوں کا ہے اس کے بعد دوسری مادی اشیاء ہیںکیونکہ انسان سب سے پہلے اس دنیا میں آیا ہے۔جب راستے سیدھے ،صاف اور رکاوٹوں سے پاک ہوں تو فاصلے سمٹ جاتے ہیںاور لوگ خوش اسلوبی سے اپنے معمول کے امور بہتر طریقے سے سر انجام دے سکتے ہیں۔
اس کے بر خلاف اگر راستے تنگ ہوں،ٹیڑھے ہوںجگہ جگہ رکاوٹیں ہوں تو پھر ذہنی کوفت کے لیے کافی ہیں۔ ہم ایک ایسے وطن میں سانس لے رہے ہیں جہاں حد سے زیادہ آزادی ہے اور ہر شخص اس آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔نہ قانون کی پروا اور نہ اخلاقیات کی فکر ۔اپنے ذاتی مفادات کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔
بات آگے پڑھ رہی ہے سمجھ میں نہیں آتا کس کس بات کا احاطہ کروں اور کس کس بات کو نظر انداز کروں۔ایک بزرگ گاڑی میں دوسرے سے کہ رہا تھا کہ جب والی سوات کی حکومت تھی تو اس نے یہ قانوں بنایا تھا کہ آبادی سڑک سے 35فٹ دور بنایا جا ئے اور ہر شخص اس پر عمل کرنے کا پابند تھا ۔لیکن جب ”ریاست سوات ”پاکستان میں ضم ہوکر چور دروازوں سے آئے ہوئے لوگوں کے حوالے کیا گیا تو ہم نے سڑک کے عین کنارے دکانیں تعمیر کرائے۔
ہمارے ہاں تو سڑکیں کشادہ نہیں اوپر سے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے سیلاب نے لوگوں کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتاہے۔یہاں پر ہر کوئی گاڑی چلا سکتا ہے اس کے لیے عمر کی حد مقرر ہے ،نہ لائسنس اور نہ قاعدے قانون کی۔اگر کسی کو مار دیا یا خود حادثے کا شکار ہوگئے تو کوئی پروا نہیں ،زیادیہ سے زیادہ اخبار میں دو کالمی سرخی میں کسی ایک کے مرنے کا بیان آئے گا اور پھر معمولات زندگی رواں دواں ہو گی۔
عام مشاہدے میں یہ بات سا منے آئی ہے کہ عموماََمکھڑی کے جالے میں چھوٹے حشرات پھنستے ہیں طاقتور مکھڑی سمیت جالے کو بھی ختم کر دیتے ہیں۔ ڈیوٹی پر مامور اہلکار ہمیشہ ایسے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جو مزدوری کی خاطر گھر نکلتے ہیںجو ٹرک یا ٹریکٹر چلاتے ہوں باقی چمچماتی گاڑیوں پر ان کی نظر نہیں پڑتی۔موٹر سائیکل سواروں نے الگ ناک میں دم کردیا ہے۔آج کل ہر کسی کے پاس موٹر سائیکل ہے ۔یہ جو بڑے بڑے علم ،تربیت اور آگہی کے گہوارے ہیں جن کی نظریں ہمیشہ بچوں کی فیسوں پر ہوتی ہیںوہاں جا کر دیکھیے کہ کتنے بچوں کے پا س بائیک ہیں۔کیا یہ تربیت کے مراکز ان بچوں کی یہ تربیت نہیں کر سکتے کہ بائیک چلانے کے لیے عمر کی ایک حد ہوتی ہے۔روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں نئے موٹر سائیکل آتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں۔اور بنانے والی کمپینیاںلوگوں کو بائیک خریدنے کے لیے مختلف ترغیبات دے رہی ہیں۔خاص کر teenagerبائیک کو ہوائی جہاز سمجھ کر چلاتے ہیں۔حادثات یہاں کا معمول بن چکا ہے۔
بے شک نئی سڑکیں نہ بنائیں لیکن جو موجود ہیں اس سے تجاوزات کا خاتمہ کرکے بے چارے عوام کو سکھ کی چند گھڑیاں دے دیں تا کہ وہ سکوں سے گزر سکے ،باقی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی ان کی جسموں سے جھونک کی طرح خون نچوڑ چکے ہیںوہ کافی ہے۔تجاوزات میں سر فہرست دکاندار حضرات ہیں۔اپنے سازوساماںاور food stuffکو سجانے کے لیے فٹ پاتھ کا سہارا لیتے ہیں ۔پیدل چلنے والے جان بچا کر سڑک پر چلتے ہیں اور دکانوں کی لٹکے ہوئے اشیاء ان کے سروں سے ٹکراتی ہیں۔دوسرے نمبر پر ٹھیلے والے ہیں جو سڑک کے کنارے پھل ،سبزیاں اور دوسری چیزیں فروخت کر رہے ہوتے ہیں ۔تیسرے نمبر پر وہ گاڑیاں ہیں جو سڑک کے دونوں کناروں کو کا ر پارکنگ کی جگہ استعمال کرتے ہیںجو سب سے خطرناک ہیں ۔نتجتاََٹریفک سارادن جام رہتاہے اور لوگ اس کے ہاتھوں ذلت اٹھاتے ہیں۔
کیا کیا جائے سمجھ میں نہیں آرہا پریشان تو سارے ہیں لیکن پرسان حال کوئی نہیں یہ پتہ نہیں ۔منتخب عوامی نمائندوں کو اخبارات میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے فرصت نہیں۔میڈیا کو قندیل بلوچ اور مفتی عبدالقوی کے تعلقات ثابت کر نے سے فرصت نہیں۔اپوزیشن کو دھرنوں سے فرصت نہیں۔ڈار صاحب انگلیوں پرمعیشت کا گراف اونچا کررہے ہیں،پرویزرشید اورمولانا فضل الرحمن صاحب پا نا مہ لیکس کے دفاع میں لگے ہیں،مقام صاحب اپنا مقام اونچا کر نے میں مصروف ہے ،حکومت کو اپنی صحت کی فکر ہے کھانسی کے علاج کے لیے بھی لندن کی یاترا کرتی ہے کیونکہ ان کے بغیریہ قوم یتیم ہو جائے گی او رعوام بے چارے رل رہے ہیں۔
مسئلہ وسائل کا نہیںہمت کا ہے وژن کا ہے اور سب سے بڑھ کر اخلاص کا ہے۔ جب نیت میں کھوٹ نہ ہو اور دل اخلاص کی دولت سے معمور ہوتو پھر راستے آسان اور سہل ہو جاتے ہیں۔ قانون اچھا ہو یا برا جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔قانون تب قانون بن جاتا ہے جب اس پر من وعن عمل کیا جائے۔یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں اس کے لیے نہ وسائل کی ضرورت ہیں اور پیسوں کی بس قانون کو حرکت میں آنا چاہیے۔صرف ایک ہفتے کی آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے بعد اگر یہ لوگ درست نہ ہوئے تو پھر کہنا۔شرط یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت سے گریز کیا جائے اور ہر شخص خواہ کوئی بھی ہوآفیسر ہو،عوامی نمائندہ ہو،قانون نافذ کرنے والے ہوں یا عام شہری سب کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلایا جائے تب یہ ممکن ہے ورنہ تمہاری بربادی کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔۔۔۔
تحریر : حامد تابانی