تحریر: عبدالرزاق چودھری
اخبارات ،ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ کی طلسماتی دنیا، مغربی ممالک کی علمی تحقیق اور سائنسی ترقی کی کہانیاں ہمہ وقت دہراتے رہتے ہیں۔ وہ اقوام چاند کو تسخیر کر لینے کے بعد دوسرے سیاروں پر اپنی حکومت اور بالا دستی قائم کرنے کے لیے دن رات محنت شاقہ کے مراحل سے گزر رہی ہیں اور ایک ہم ہیں جو ہر نئے قدم پر اک عجب،انوکھے اور اپنی نوعیت کے منفرد بحران سے نبرد آزما ہیں۔وطن عزیز کی عمر ستر سال کے قریب ہونے کو ہے اور عوام ابھی تک بنیادی ضروریات کی سہولتوں سے یکسر محروم ہیں۔ آسمان سےسورج شعلے برسا رہا ہے اور زمین آگ اگل رہی ہے اور غریب کے لیے بجلی کا انتظام ہے نہ پانی اور گیس کا۔
ان تینوں مذکورہ بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کے سابقہ تمام ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ خود کشیوں اور خودسوزیوں کا دلخراش موسم اپنے عروج پر ہے۔حوا کی بیٹیاں دو وقت کی روٹی کے لیے اپنی عصمت تک فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ صورتحال معاشرے کے درد مند اور حساس دل افراد کے لیے اذیت اور تکلیف کا باعث ہے۔
ایک طرف تو بنیادی ضروریات کی غیر موجودگی غریب اور محنت کش کا درد سر بنی ہوئی ہے دوسری جانب لیسکو اور دوسرے بجلی کے تقسیم کار ادارے جس بے دردی سے بجلی،پانی اور گیس کی اوور بلنگ کے ذریعے غریبوں کا خون نچوڑ رہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی یہ مفلس جن کے پاس ریفریجریٹرکی سہولت ہے نہ ائیرکنڈیشنر کی۔ لیکن بل ان کو یوں بھیجے جا رہے ہیں جیسے گھر میں انھوں نے فیکٹری لگا رکھی ہو۔لوگ حکومتی رویے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں بل نذر آتش کیے جا رہے ہیں لیکن حکومتی ادارے اس قدر بے پرواہ ہیں کہ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
بلکہ الٹا آئے روز بلوں میں نئے نئے ٹیکسوں کا اضافہ کر کے غریبوں سے جینے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔امیر لوگ میٹر ریڈرز کے ساتھ مل کر بجلی چوری کرتے ہیں اور اس چوری کا بوجھ بھی غریب کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اسی سبب معاشرے میں جرائم کی شرح بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔غریب اور امیر میں فرق وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ارض وطن میں اشرافیہ اور عام لوگوں کے لیے انصاف کے تقاضے بھی مختلف ہیں۔ عام آدمی کو معمولی سی لغزش پر دھر لیا جاتا ہے اور اس کے گرد زندگی کا دائرہ تنگ کر دیا جاتا ہے اور اسے ناکردہ گناہوں کی سزا دینے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی۔
اس کے برعکس بدمعاش،ڈاکو،لٹیرے اور مخدوم،چودھری،وڈیرے بڑے سے بڑا جرم کر کے بھی بے خوف و خطر پولیس کے آگے پیچھے دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں انھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا ہے نہ کوئی پوچھنے والا۔ مراعات یافتہ طبقہ کے لیے قانون کی پامالی کھیل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔ جب چاہا اور جہاں چاہا قانون،اصول اور ضابطہ کو درخت سے گرے ہوے زرد پتے سمجھ کر پاوں سے روندتے مسلتے، بڑےتفاخر سے،یہ جا اور وہ جا۔
کبھی ان غریبوں کے دل ٹٹول کر دیکھیے۔ پاک وطن سے عقیدت کا چشمہ پھوٹتا دکھائی دے گا۔غربت کی آغوش میں ہونے کے باوجود پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اورنام نہاد خدمت گار اشرافیہ وطن عزیز کے تمام وسائل لوٹ کر ،اپنے غیر ملکی اکاونٹس ناکوں ناک بھر کے بھی، ارض وطن سے شکوہ کناں اور شاکی نظر آتی ہے۔ ان کا ایک قدم پاکستان میں تو دوسرا امریکہ و یورپ میں ہوتا ہے۔ ان کا جسم پاکستان میں ہی کیوں نہ ہو دل کی دھڑکن یورپ کی رنگینیوں ہی سے جڑی ہے۔میرے وطن کے غریبو،تمہاری ملک کے لیے محبت، عقیدت۔ جذبہ اور قربانی کو سلام ۔ تم ہی اس ملک کے حقیقی وارث ہو۔ تمہیں سلام
تحریر: عبدالرزاق چودھری