counter easy hit

آخر غریب کارکن کا مقدر دھکے ہی کیوں ۔۔۔۔۔؟

Poor People

Poor People

تحریر: صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
آخر غریب کا مقدر ”دھکے ” ہی کیوں ۔۔۔۔۔؟ہسپتال میں دھکے ۔۔۔۔تھانہ میں دھکے ۔۔۔۔ کچہری میں دھکے ۔۔۔۔۔اسکول میں دھکے ۔۔۔۔۔بازار میں دھکے ۔۔۔۔۔وڈیرے کی دہلیز پر دھکے ۔۔۔۔۔سرمایہ دار کی چوکھٹ پر دھکے ۔۔۔۔۔۔ہسپتال میں ڈاکٹر اسے دھکے دے ۔۔۔۔۔تھانہ میں کانسٹیبل اِسے دھکے دے ۔۔۔۔۔اسکول میں چپڑاسی اِسے دھکے دے ۔۔۔۔۔۔کچہری میں مُنشی اِسے دھکے دے ۔۔۔۔۔وڈیرے کی دہلیز پر وڈیرے کا ٹائوٹ اِسے دھکے دے ۔۔۔۔۔۔۔کیا غریب صرف دھکے کھانے اور جھڑکیاں سہنے کے لیے پاک سر زمین ، کشور حسین ، مرکزِ یقین میں پیدا ہوا ہے غریب بے چارہ اگر کسی ”پیر ” کی بار گاہ میں حاضر ہو جائے تو نذرانے بٹور نے والا پیر بھی اِس سے کراہت کرتا ہے اور اپنے آستانے سے دور بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے اور جوں ہی اِس دولتیے پیر کی نظر کسی نو دولتیے کا طواف کرتی ہے تو فوراََ پیر کے حواری اِسے ”دیوان ِ خاص ” میں لے جا تے ہیں اور پھر چل سو چل۔

کہیں سے مُرغ مسلم کی ڈِش تو کسی کونے سے گرم گرم بریانی اور کوفتے ایسے پیش کیے جا رہے ہوتے ہیں جیسے مُغلوں کے زمانے میں کسی عیاش و قباش بادشاہ کو ”کنیزیں ”پیش کی جاتی تھیں بعض اوقات تو یہ نظارے بھی آستا نوں پر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ پھٹے پُرانے چیٹھڑوں میں ملبوس کوئی مُرید صدقِ دل، حُسنِ نیت ،کامل یقین اور پُختہ اِرادے کے ساتھ ”پیر ” کے آستانے پر حاضری بھی دیتا ہے تو اُسے ہمیشہ آخری صف میں بیٹھا ہوا پایا ہے۔۔۔۔سیاسی جماعت کا لیڈر بھی ہمیشہ ”امیر زادے ” کی خاطر مدارت کرتا ہے وطن عزیز کے جتنے بھی ”راہنمایانِ قوم ” آپ کو نظر آئیں گے سب کے گرد دیکھ لیں سر مایہ دار اور جاگیر دار ہی نظر آئیں گے عمران خان ہمیشہ شوگر مافیا کے سر براہ جہانگیر ترین ،آستانہ عالیہ شاہ رکن عالم اور مرد ِ قلندر بہا الدین زکریا ملتانی کے گدی نشین شاہ محمودقریشی ، لینڈ مافیا کے سر غنہ عبد العلیم خان ،بینکوں کے ڈیفالٹرز چوہدری اعجاز احمدجیسے ”ٹَٹ پونجوں ”کے حصار میں۔

مخلص اور بے ریا و بے لوث کارکن آج بھی سردیوں کی ٹھٹھرتی یخ بستہ راتوں کو جاگ کرگلی گلی ، چوک چوک کہ ”جاگنے والو جاگتے رہیو ”ملک پر چوروں کی اِجارہ داری ہے ”کا آوازہ لگا کر اپنے بچوں کے لیے رزقِ حلال کمانے کا اہتمام کرتے ہیں نہ وہ الیکشن کے دنوں میں ٹکٹیں بیچ کر کمیشن کھاتے ہیں اور نہ ہی کسی ایم پی اے اور ایم این اے سے ”جگا ٹیکس ”وصول کرتے ہیںکشور ِ حسین ، مرکزِ یقیں میں تو رواج ہے کہ جو ”مالِ یتیم خور” حرام خور ” ہو سیاسی جماعتوں کے قائدین ٹکٹیں بھی اُسے ہی مال ِ غنیمت سے ”عطا ” فر ماتی ہیں ۔۔۔۔ایک سیاسی جماعت کے لیبر ونگ کے صدر زبیر خان کے پاس مالِ حرام نہیں تھا اِس لیے آج وہ اس جماعت کی اخیرلی صفوں میں کھڑا نظر آتا ہے آنے والے الیکشن میں ضلع لیہ سے ٹکٹیں پھر جکھڑوں ، سیہڑوں ، تھندوں ، مہروں ، کھترانوں ،مگسیوں ، شہانیوں ، بپیوں ،تنگوانیوں کو ہی اِلاٹ کی جائیں گی اور جو زیادہ بولی لگائے گا ”پیسہ کمانے کی فیکٹری ” اسمبلی کا تخت اُس کا ہی مقدر بنے گا۔

عبد الرحمن مانی ، رانا عثمان، سید جان پٹھان ، ظریف خان ، غضنفر جعفری ، غفار خان ، قاسم خان ، شیدا کمہار ، اللہ دتہ لوہار ایسے بے شمار مخلص وکرز سڑکوں پر ” آوے آوے ” جیوے جیوے ” کے صرف نعرے ہی لگاتے نظر آئیں گے اب بھی ایک سیاسی جماعت کی ضلعی صدارت کے لیے جو تین نام سامنے آرہے ہیں اِ ن تینوں میں کوئی بھی مزدور یا ورکر نہیں ہے تینوں ” ما شا ء اللہ ” کھاتے پیتے جاگیر دار،سرمایہ دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ شریفین والبریفین بھی خواجہ سرائوں ، خواجہ سرا نما نثاروں ،ڈاروں ، ڈالرز مافیائوں اور ‘یس سر ” کرنے والوں سر مایہ داروں کے جھُرمٹ میں ۔۔۔۔۔۔کشمیر کمیٹی کی سر براہی ”حلال ”کرنے والے اپنے مولانا فضل الرحمن بھی اقرباء پروری کے زُعم میں ،سینٹ کے الیکشن میں اپنے سمدھی کو یاد رکھا اور پرانے مرنجاں مرنج شخصیت جناب ِ حافظ حسین احمد کو نظر انداز کر دیا۔۔۔۔اپنے قائد انقلاب المعروف ”شیخ الاسلام ”بھی ہر لحظہ اور ہر ساعت ”جی حضوری ‘ ‘ کرنے والے خرم نواز گنڈا پوری اور”ہاں جی ”کی رٹ لگانے والے بے بس اور بے چس”راہنما ” رحیق عباسی ہی کو پارٹی کی اُمیدوں کا محور و مرکز تصور کرتے ہیں۔

شیخ الاسلام کے سیکرٹریٹ میں گونگوں، بہروں ، اندھوں کابسیرا ہے۔۔۔۔۔۔۔ بی بی مرحومہ کے اکلوتے شوہر ”نامدار ”بینبینو سینما پر پشتو فلموں کی ٹکٹیں بیچنے والے نام نہاد ”مفاہمتی ”پالیسی کے نرغے میں گھری مفاد پرستانہ اور باری باری کی سیاست کرنے والے آصف زرداری کو بھی سوائے مظفر ٹپی اور فریال تالپور کے نہ پارٹی میں کوئی اور دِکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کوئی سُجھائی دیتا ہے داتا کی نگری لاہور میں ساری زندگی پارٹی کا مخلص ، بے لوث ، وفا دار کارکن ”سائیں ہرا ”لاہور کی سڑکوں پر اپنی زندگی کی جمع پونجی گدھا گاڑی پر اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی مرحومہ کی تصویر ترنگے جھنڈے کے ساتھ سجائے طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک سِٹے بیچا کرتا تھاغربت کے عالم میں اُس کی خبر گیری نہ کی گئی کہ وہ اپنی زندگی کے شب و روز کیسے بسر کر رہا ہے ۔۔۔۔؟اُس کے لیے ہر شام”شامِ غریباں ”ہوتی اور ہر صبح ”صبحِ کاذب ” بن کر آتی ،اورمزے کی بات یہ ہے کہ”راہنمایان ِ قوم ” پی پی پنجاب کے آفس کا افتتاح ”سائیں ہرا ” سے کرواتے ہیں جب وہ موت کی وادی میں دھکیل دیے گئے تو اُن کی چار پائی کو کندھا دینے کے لیے اُس وقت کے پی پی پی پنجاب کے صدر قاسم ضیاء پیش پیش نظر آتے ہیں، زندگی میں مالی سپورٹ کر کے اُسے کندھا نہ دیا گیا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جا تا ہماری سرائیکی کی مثال ہے کہ ” مرے کی ۔۔۔۔۔پر مکھن لگانا خالی جگہ پڑھنے والا خود ہی پُر کر لے۔

بد قسمتی کہیے کہ داعیان ِ انقلاب اور قائدین انقلاب بھی ”خود نمائی ” کی گھُمن گھیریوں اور مغرب کو خوش کرنے کے چکر میں مبتلا ہیں اور اپنے حلقہ احباب میں انقلابیت کی تخم ریزی کرنے کی بجائے ”جی حضوری ” کے کلچر کی پرورش کر رہے ہیں غریب پروری کا نعرہ مستانہ لگا کر درحقیقت غریب کُش اور اقربا پروری کے گھٹیا تصورات کو اپنے من میں بسائے رواں دواں ہیں ، ورکرز کو ”ہرا ” کرنے کی بجائے ان کے زخموں کو اور زیادہ ”گہرا ” کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں تو پھر لُڑھکتی اور بہکتی قیادتو! یاد رکھو ، محض ”سائیں ہرا ” سے دفتر کا افتتاح کروانے اور گروپ فوٹو سیشن سے کارکن ”ہرے ” نہیں ہوتے جب تک کارکن کو اس کی جدوجہد کا ثمر نہیں دیا جاتا ، جماعتوں کے دفاتر اُجاڑ بستی کا سماں پیش کرتے رہیں گے ، اپنے سینے پر قیادت کا بیج اور کاندھے پر وزارت کا تمغہ سجانے والے اس وقت سے ڈریں جب تحریکی عمارتوں کے اِن خاموش پتھروں نے ذرا سی بھی کروٹ لی تو دیو قامت تحریکی سیکرٹریٹ اور وسیع و عریض رقبے پر پھیلے تحریکی و جماعتی محلات کو قیادت سمیت زمین بوس ہونے سے کوئی او بامہ کی معنوی اولاد اور مغرب کے پٹھو نہیں بچا سکیں گے اور پھر یہی ڈالروں کی کھنکتی ہوئی پائلیں اِنہی قائدین کے پائوں کی بیڑیاں اور ہاتھوں میں پکڑے گرین کارڈ ز ہتھکڑیاں بن جائیں گے اب تو مغرب نے اُنہیں اپنی کوکھ میں بٹھا رکھا ہے لیکن جب کارکن نے انگڑائی لی اور غریب عوام نے ”کُوک ”ماری تو ایسے نام نہاد قائدین انقلاب کی پھُوک نکل جائے گی۔

کارکن بے چارہ غریب اور مفلس ہے اس کا قصور اور جرم صرف اتنا ہے کہ اس کی جیب میں کھنکتے سکے نہیں ، ہاتھ میں موبائل نہیں ، بینک میں وسائل اور گردن میں اکڑ نہیں ہے حالانکہ اس کے خون اور پسینے سے فلک بوس تحریکی عمارتوں کا حسن اور چہل پہل ہے ، رفیع الشاں سیکرٹریٹ اور ”بلاول ہائوس ”کی لہر بہر ہے کارکن ہی قیادت کی آن بان ہیں ، بغیر کارکنوں کے قائد ایس اے جعفری ، جاوید اکبر ساقی ،ایئر مارشل اصغر خان ، نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم ،حمید اصغر شاہین ، پیر فضل حق ، محمد علی درانی تو بن سکتا ہے قائد اعظم محمد علی جناح نہیں بن سکتا ، قیادتیں اپنے گرد چمچوں ، کڑچھوں ،بَر چھوں ،بُرچھوں، کف گیروں ، صاحبِ جا گیروں، رسہ گیروں، ٹَٹ پونجیوں کو جمع کرنے کی بجائے ہیرا نما کا رکنوں کو اکٹھا کریں ، یاد رکھیے۔

کانٹوں سے کبھی پھولوں نے جنم نہیں لیا اور پھولوں کی پتیاں کبھی خوں خاری نہیں کرتیں ، چلتے چلتے ایک اہم بات کی طرف توجہ دلاتا جائوں کہ لاکھ مگسوی ، الطافوی ، پلیجوی ، لنگاہوی ، اچکزوی ، اسفندوی ، ممتازوی ، مبشروی ، مینگلوی ، تحسینوی ، اصغر وی ، مینار ِ پاکستان کو اُکھاڑنے اور پاکستان کو مٹانے کے کروڑہا منصوبے تراشیں ، پاکستان کے خلاف سوچنے والے دماغ سڑ جائیں گے مگر پاکستان دائم اور مینارِ پاکستان اپنی جگہ قائم رہے گا یہ بات میں آج پورے ایمان اور ایقان سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے اس کی بنیاد کلمہ طیبہ کے آفاقی اور کا ئناتی تصورات پر رکھی گئی ہے جب تک اس دھرتی کی پیشانی پر کلمہ طیبہ تحریر ہے دنیا کے نقشہ پرپاکستان کی تصویر بھی قائم رہے گی پاکستان کی انچ برابر زمین کو لندن اور دوبئی میں بیٹھی صیہونی طاقتوں کے آلہ کار گزند نہیں پہنچا سکتے ، پاکستان پائندہ باد ۔۔۔۔۔۔ غریب کارکن زندہ باد ۔۔۔۔۔الحمد للہ ،کثیر تعداد میں قارئین محبت اور احترام کا رشتہ رکھتے ہیں اُن کے پُر زور اصرار پر آخر میں اپنا رابطہ نمبر بھی دے رہا ہوں03314403420۔۔۔۔۔ کل ایک نئے موضوع کے ساتھ قارئین کی ”بیٹھک ” میں حاضری ہو گی تب تک کے لیے اللہ حافظ

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر: صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
03314403420