وقت جوں جوں کروٹ بدلتا ہے اس کے ساتھ ہی مختلف فیشن ٹرینڈو رحجانات میں تبدیلی رونما ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ کپڑوں ‘ جوتوں‘سینڈلز کے ڈیزائنرمیں تبدیلی آجاتی ہے جبکہ رنگ بھی فیشن کی مناسبت سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بالوں کے بھی نت نئے اور منفرد انداز آتے جاتے رہتے ہیں اور خواتین اسے بہت ذوق وشوق سے اپناتی ہیں 90ء کی دہائی میں ہیئرپمنگ کافیشن بہت مقبول ہوااور تقریباََ ہر وہ خاتون جونئے فیشن کواپنانے کی دلدادہ تھیں انہوں نے اپنے بال گھنگھریالے کروا لیے۔ پھر سلکی واسٹریٹ بالوں کے رحجان نے لڑکیوں وخواتین کو اپنا گرویدہ بنالیا اور اس پہ ہلکا سا فرنٹ پف کئی عرصے تک ان رہا۔ جبکہ اب گزشتہ کچھ عرصے سے فرنٹ پف کی جگہ ٹوئسٹ کی دولٹوں کواکچھ اس طرح ٹوئسٹ یعنی گھمایایا مروڑ کرباندھا جاتاہے جونہایت خوبصورت انداز پیش کرتاہے۔ اسی طرح آج کل فیشن میں فش ٹیل ( جسے کھجوری چوٹی بھی کہاجاتاہے) اور فرینچ بریڈبہت مقبول ہے اور نفاست وسلیقے سے بندھے ہوئے نہیں ہلکہ بکھرے بکھرے اور قدرے پھولے ہوئے بالوں کااسٹائل بے انتہا مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔ فش ٹیل اور فرینچ بریڈبالوں کے انداز کاایسا ٹرینڈ ہے جوکبھی منظر سے غائب نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی نئے اور اچھوتے انداز میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہیئر اسٹائلسٹ اس میں مزید تنوع پیدا کرنے کے لئے فالنگ فرینچ‘ سائیڈ فرینچ وغیرہ بناتی ہیں اور ان ہیئر اسٹائلز کوبنانے سے پہلے بالوں کو رولرلگا کر رول کرلیتی ہیں تاکہ اس کونئے اسٹائل سے آراستہ کرنے اور خوبصورت میسی لک عطا کرنے میں آسانی ہوسکے۔جیسے آنکھوں میں بکھیرا ہواکاجل بہت حسین وپرکشش لگتاہے اسی طرح اب جدید ٹرینڈ کے مطابق بال بھی اسی طرح کے چل پڑے ہیں سوآپ کوکسی شادی کی تقریب میں شرکت کرنی ہے یاکسی پارٹی میں جانا ہے یامعمول کے مطابق بالوں کوسنوار کرگھرسے باہر جانا ہو آپ اسی مناسبت سے فش ٹیل‘ فرینچ بریڈ اور ٹوئسٹ اسٹائل اپنا کراپنی شخصیت کے چارم میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
سیاہ مہندی کااستعمال انتہائی مضر
آج کل مارکیٹ میں دسیتاب کیمیائی اجزاء سے بھرپور مہندی کون جلد کیلئے بالکل موزوں ومناسب نہیں
مہندی سے اپنے ہاتھوں کورنگناہماری تہذیب وثقافت کابرسوں سے ایک حصہ رہاہے ہاتھوں پیروں کو مہندی کے ذریعے خوبصورت نقش نگار سے سجائے بغیرخواتین شادی کی تقریب اور عید کوبالکل ادھورا اور پھیکا پھیکا محسوس کرتی ہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں توحنائی رنگے ہاتھوں کوسہاگ کی نشانی تصور کیا جاتا ہے اور اگر مہندی نہ لگائی جائے تواکثر بزرگ خواتین ناراض نظر آتی ہیں پہلے وقتوں میں مہندی کے پتوں کوپیس کر ہاتھوں پیروں اور بالوں کورنگنے کااہتمام کیاجاتاتھا یابازار سے قدرتی مہندی خرید کررات بھر بھگوکررکھ دیا جاتا تھا اور اس میں قدرتی گہرا سرخ لانے کیلئے گھریلو نسخوں اور ٹوٹکوں کی آزمایا جاتا تھا جیسے چائے کی پتی کاپانی‘ لونگیں وغیرہ لیکن اب ان قدرتی اجزاء کی جگہ کیمیکل نے لے لی ہے اور قدرتی اجزاء سے تیار کردہ مہندی کے بجائے کیمیکل سے بھرپور مہندی مارکیٹ میں دستیاب ہے جوخواتین کی جلد کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔
آج کل آپ کومارکیٹ میں ایمرجنسی کون مہندی (جو 15منٹ میں کیمیکل کے باعث مہندی کے رنگ کو گہرے رنگ چڑھادیتی ہے ) لال مہندی کالی مہندی ان تمام قسموں کی مہندی میں نہایت تیز اور خطرناک کیمیکل شامل کیا جاتا ہے جوآپ کی جلد کے لئے بالکل بھی موزوں اور مناسب نہیں ہوتاہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ مضر صحت اور نقصان دہ مہندی سیاہ مہندی ہے۔ اس میں ہیئر ڈائی کے لئے استعمال ہونے والا کیمیکل استعمال کیاجاتا ہے۔ جوآپ ہاتھوں پر کافی گھنٹوں لگاکر بیٹھی رہتی ہیں۔ سیاہ مہندی سے متاثرہ متعددخواتین ایسی ہیں جن کے ہاتھوں پر آبلے اور پھوڑے بن گئے یاان کے ہاتھ کیمیکل ری ایکشن کے باعث بری طرح جھلس جاتے ہیں۔ میں نے ایسی بھی خواتین کودیکھا ہے جن کے ہاتھوں پر سیاہ مہندی کی وجہ سے جلنے کے نشانات مستقل طور پر پڑگئے ہیں۔ اس سے اکثر خواتین کو اسکن الرجی کی پریشانی سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے۔ ان کیمیکل سے بھرپور مہندی سے ہونے والی الرجیز اور جلے ہوئے نشانات بعض اوقات مکمل طور پر ختم بھی نہیں ہوتے ہیں۔ لہٰذا مہندی کونزکسی معیاری اور چھے پارلر سے خریدیں جہاں آپ کومضر اثرات سے پاک مہندی کون فراہم کرنے کی ضمانت دی جارہی ہو۔ البتہ جہاں تک ممکن ہواپنے آپ کوان کیمیکل سے تیار کردہ مہندی کونزسے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں اور قدرتی اجزاء سے تیار کی ہوئی مہندی استعمال کریں۔ اصلی اور نیچرل مہندکی خوشبو بہت بھینی بھینی اور مٹی کی طرح سوندھی ہوتی ہے۔ جبکہ آج کل کی بازار میں فروخت ہونے والی کونز میں سے نہایت تیزاور عجیب سے بوآتی ہے اور اس کارنگ بھی ہراہونے کے بجائے لال یاسیاہ ہوتاہے۔ جو کیمیکل کی کثیرمقدار کاپتہ دیتا ہے۔ خواتین تھوڑے سے وقت کی خوبصورتی وآرائش کے لیے اپنی صحت کو خطرے میں ہرگزنہ ڈالیں اور اس طرح کی تمام اشیاء سے دور رہیں جوآپ کی جلدی صحت کے لیے خطر ناک قرار دی جاچکی ہوں۔