تحریر : شاہد شکیل
اعداد و شمار کے مطابق آبادی کے لحاظ سے چین پہلے نمبر پر ہے لیکن اوسطاً شرح پیدائش میں افریقا کے تقریباً تمام ممالک دنیا بھر میں رینکنگ کے لحاظ سے نمبر ون ہیں،ایک رپورٹ کے مطابق دو ہزار دس سے دوہزار پندرہ تک افریقی ممالک جن میں نائیجر اور سینیگا ل سر فہرست ہیں جہاں ایک عورت سات بچوں کو جنم دیتی ہے۔ ارضیاتی ماہرین کا کہنا ہے دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی ، فضلات، غلیظ ساحل ، مردہ جانور،انڈسٹریز اور آلودگی کے پھیلاؤ سے ہم اپنے ہی ہاتھوں سے زمین کو تباہ کر رہے ہیں اور اگر بڑھتی آبادی پر قابو نہ پایا گیا تو ہزاروں اقسام کی بیماریاں وجود میں آئیں گی جن کا علاج ناممکن ہو سکتا ہے۔
ایک غیر سرکاری امریکی جریدے جسے پاپولیشن میڈیا سینٹر ورمونٹ نے اوور ڈیویلپمنٹ ،اوور پاپولیشن اور اوور شوٹ کے عنوان سے شائع کیا جس میں تفصیل سے بتایا گیا کہ دنیابھر میں انسانوں کا رہن سہن، تیزی سے آبادی میں اضافہ ،زندگی گزارنے کا طریقہ ،پیدائش و اموات ، غلاظت ، بیماریاں ،حفظانِ صحت اور انڈسٹریز کے علاوہ دیگر موضوعات شامل ہیں کن طریقوں یا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسان زمین کو تباہ کر رہے ہیں
انہی اہم وجوہات کے سبب زمینی حقائق میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے جو کہ مستقبل قریب میں زمین پر شدید اثر انداز ہو گی۔پاپولیشن میڈیا سینٹر کے ترجمان جوزف بِش نے بتایا کہ وسائل لامحدود نہیں ہیں لیکن دنیا بھر میں آبادی کی رفتار کو روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات کیا جانا ضروری ہو گیا ہے ،ہر سیکنڈ میں تین ، فی منٹ ڈیڑھ سو، فی گھنٹہ نو ہزار ،فی دن دولاکھ بیس ہزار کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور ظاہر بات ہے کہ ان انسانوں کو ضروریاتِ زندگی کے لئے روٹی کپڑا مکان چاہئے اور ہم سب فوری طور پر چاہتے ہیں کہ زمین ہمیں مہیا کرے لیکن یہ ناممکن ہے
ہم بہت جلد فنا ہونے والے سیارے سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں ،میگزین میں چند دل خراش تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں جو ناگزیر وجوہات کی بنا پر کالم میں شائع نہیں کی جاسکتیں ،جوزف بِش کا کہنا ہے ہمیں سوچنا چاہئے ہماری غلطیوں اور غیر ذمہ داریوں کے باعث اب تک کتنے جانور اور پھول پودے تباہ ہونے سے ناپید ہو چکے ہیں کئی بار زمینی اور قدرتی آفات نے شہروں کو کھنڈر بنا دیا مثلاً جنگیں ، سیلاب اور زلزلے وغیرہ اور انسانوں نے کئی ایسے مقامات پر رہائش اختیار کر رکھی ہے جہاں سوچنا بھی ناممکن ہے،اور ایسا بھی ہوا کہ موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی سے موت کا شکار ہوئے،
قدرتی آفات ہر جگہ یا ہر روز نہیں آتیں لیکن زمینی آفات کے سبب انسانوں کی اموات میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف مغربی صنعتی ممالک میں اگرچہ شرحِ پیدائش میں کمی واقع ہوئی ہے تو دوسری طرف ترقی پذیر ممالک میںشرح پیدائش میں مزید اضافہ بھی ہوا ہے ،شمالی مغربی افریقی نائیجر اور سینیگال میں بلند ترین اضافہ ہوا ہے ان ممالک میں ایک عورت اوسطاً سات بچوں کو جنم دے رہی ہے ،ہمارا مقصد دنیا بھر کے ممالک کو آنے والی آفات سے آگاہ کرنا ہے نہ کہ خوف میں مبتلا کرنا کہ اگر پیدائش پر فوری قابو نہ پایا گیا
تو یہی آبادی بہت جلد زمینی آفات کے علاوہ قدرتی آفات کا سبب بھی بن سکتی ہے۔تحقیق کے مطابق دو سو سالوں میں انسانوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اگر ہم مزید زندہ رہنا چاہتے اور زمینی و قدرتی آفات سے بچنا چاہتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنا ہو گی خواتین کے حقوق کو پامال نہیں کرنا ہو گا اور مساوات کو مد نظر رکھ کر ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا،خواتین کے ساتھ زیادتی اور تشدد کا راستہ اپنانے کی بجائے انہیں آزادی دینا ہو گی کہ زندگی کے کئی فیصلے کرنے کی وہ خود مجاز ہوں
مثلاً انہیں یہ فیصلہ کرنے کا حق اہم رول ادا کرتا ہے کہ وہ لائف پارٹنر سے فیوچر پلاننگ پر بات کرنے کے بعد فیصلہ کر سکیں کہ کتنے بچوں کو جنم دینا چاہتی ہیں،لیکن ا س سے قبل یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کیا ہے یا پروٹیکشن کیسے کی جاتی ہے،علاوہ ازیں کئی ممالک میں کم عمر بچوں کی شادیوں کی روک تھام لازمی ہے بچپن کی شادیاں محدود وسائل ، غربت ،توانائی کے بحران ، کلچرل مسائل وغیرہ بھی آبادی میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔اٹھارہ سو چار میں زمین پر ایک ارب لوگ رہتے تھے انیس سو ستائیس میں یعنی صرف ایک سو تیئس سال بعد آبادی دوگنی ہو گئی سینتالیس سال بعد انیس چوہتر میں چارارب اور آج دوہزار پندرہ میں سات ارب سے زائد لوگ اس سیارے پر بستے ہیں
اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شرح آبادی کس رفتار سے بڑھ رہی ہے اور یہی بڑھتی آبادی زمین کی بربادی بن سکتی ہے ۔ یونائیٹڈ نیشن کی پیشن گوئی کے مطابق آنے والی صدی یعنی ٢١٠٠ میں چھ ارب سے سولہ ارب تک آبادی میں اضافہ ہو سکتا ہے جو کہ چار ارب اور سولہ ارب میں بہت بڑا فرق ہے،جوزف بِش کا کہنا ہے مذکورہ بالا اقدامات پر عمل کرنے سے ممکنہ طور پر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی میں کمی واقع ہو سکتی ہے چار ارب سے بڑھ کر چھ ارب تک کا فرق اتنا زیادہ نہیں
لیکن سولہ ارب کی آبادی ایک خوفناک خواب کی مانند ہے ہماری کوشش ہے کہ حفاظتی اقدامات کو بروئے کار لا کر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پایا جائے،رپورٹ کے مطابق آبادی کی روک تھا م کیلئے ترقی پذیر ممالک کو سالانہ تین ارب ڈالر سے زائد کی امداد دی جاتی ہے اس کے باوجود کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے۔
تحریر : شاہد شکیل