تحریر : نوشین سعد پاکستانی میڈیا 2002 میں آزاد ہوا۔ اس سے پہلے میڈیا آزاد نہ تھا۔تب میڈیا کی خبروں کا دارومدار سرکاری زرائع ابلاغ پرتھا اور میڈیا کو جن مشکلات کا سامنا تھا وہ واقعی ایک آزمائش تھی۔ تب من پسند افراد کو اہمیت دی جاتی اور اپوزیشن کی کوریج سے روکا جاتا تھا۔ملک کے وسیع تر قومی مفاد کی آڑ لیکر کبھی سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑتا تو کبھی جبری ریٹائر کر دیا جاتا کبھی زبانی حکم نامے آتے تو کبھی قیدو بند کی سعوبتیں برداشت کرنی پڑ جاتیں اور کبھی اشتہارات کی بندش کر کے ان کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے۔2002 میں میڈیا کو آزادی دیکر جنرل مشرف نے پاکستانی قوم پر بہت بڑا احسان کیا اور کہا”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ”اور جب میڈیا بولنے لگا تو اچھے اچھوں کی بولتی بند ہو گئی ۔وہ لوگ جو میڈیا کی آزادی کومزاق سمجھتے تھے انکا خود مذاق بننے لگا ایک دور تھا سیاستدانوں کی کرپشن کا دبے الفاظ میں ذکر کیا جاتا تھا۔ میڈیا کیا آزاد ہوا انکو عوام کی عدالت ٹاک شو میں پیش کیا جانے لگا اب حکمران طبقے کی معلومات کے زخیروں پر اجارہ داری ختم ہونے لگی۔
آمرانہ ہتھکنڈے بھی دم توڑنے لگے۔ اپوزیشن کی بھی کوریج ہونے لگی۔ سیاسدان جھوٹے الزامات پر ٹاک شو میں جوابدہ ہونے لگے ۔عوام یکدم یہ تبدیلی دیکھ کر خوش ہو گئی ۔ہر کس و ناکس سیاست کے رموز سمجھنے لگا ۔ آج آزاد میڈیا نے عوام کو جو شعور بخشا ہے وہ تاریخ کے پنوں پر سنہری حروف سے لکھا جائے گا ۔آج کا میڈیا اس دور کی یاد دلاتا ہے جب عوام اور سلطان اکٹھے قاضی کی عدالت میں پیش ہوتے تھے۔آج ٹاک شو میں بلا امتیاز سب کو آئینہ دیکھایا جاتا ہے ۔ایک دور تھا سچ کی آواز دبادی جاتی تھی۔ سچ کی سزا میں قید و بند کی سختیاں جھیلنی پڑتیں تھیںیا مار دیا جاتا تھا مگر اب آزاد میڈیا کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ مظلوم کی آواز بن گیا ہے وہ بیماروں کا مسیحابن گیا ہے ۔مریض کو جب بستر اور دوائی نہیں ملتی ،ہاسپٹل کے ڈاکٹر ہڑتال کر رہے ہوتے ہیں۔ میڈیا پر ایک خبر آتی ہے اور سب کی دوڑیں لگ جاتی ہیں مریض کو شاہی پروٹوکول ملنے لگتا ہے۔ویسے بھی میڈیا کا سامنا کرنے سے بڑے بڑوں کا پتا پانی ہو جاتا ہے۔
بے شک کچھ جھوٹی خبریں بھی آجاتی ہیں مگر بہت جلد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔آج جب مظلوم کی ایک آواز میڈیاپر آتی ہے تو اس کے ساتھ کئی آوازیں ہم آواز ہو جاتی ہیں۔ میڈیا کی آزادی سے عام آدمی میں ہمت پیدا ہوئی ہے ۔ کیوں کہ یہ میڈیا انکی سنتا ہے جنکی کوئی نہیں سنتا ۔جانے کتنی صدیوں سے جرگے کے غلط فیصلوں کی بھینٹ حواکی بیٹی چڑھتی آ رھی تھی ۔ میڈیا ان لڑکیوں کے لیے راہ نجات بن کر آیا ہے۔ آج عوام کی آواز حکمرانوں کے ایوانوں میں گونجتی ہے ۔علاوہ ازیں،آزادی اتنا گراں قدر موتی ہے کہ ہر کس و ناکس اس کا اہل نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔ آزادی بڑی نعمت ہے مگر تب یہ زحمت لگنے لگتی ہے جب اسکا استعمال غلط طریقے سے کیا جائے۔ اب جبکہ میڈیا میں ریٹنگ کا جنون فروغ پا رہا ہے تو میڈیا میں دو بیماریاں فروغ پا رہی ہیں ۔۔۔۔افواہ سازی۔اور۔مبالغہ آرائی۔۔۔۔۔ پتا نہیں ریٹنگ کے شوقینوں کو کس نے کہہ دیا کہ جو زیادہ سنسنی پھیلائے گا وہی کامیاب ہو گا۔
اب تو وہ زمانہ جاہلیت کی طرح نفع نقصان سوچے بنا متوقع خبر افواہ کی صورت دے دی جاتی ہے اگر غلط ہو تو کوئی گل نہیں اور اگر ٹھیک ہو جائے تو سب سے پہلے خبر دینے پر اپنی اور اپنے چینل کی شان میں قصیدے شروع کر دیے جاتے ہیں اور خود کو عقل کل ثابت کرنے میں کوئی کسر جمع نہیں رکھتے اور کبھی کبھی تو چھوٹی سی خبر میں وہ سنسنی ڈالی جاتی ہے خدا کی پناہ ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ جاتی ہے بلڈپریشر ہائی ہو جاتا ہے ایک اور بات جسکی طرف توجہ دلانا چاہوں گی آگ لگ گئی ۔ہر طرف آگ ہے ہاں جی ہمارے نمائندہ سے بات کرتے ہیں تو بتائیے آگ کہاں لگی اور کتنی شدت سے لگی ہے ؟آگ جھاڑیوں میں لگی ہے حد۔۔۔۔ہے۔۔۔نام اٹھانے کی ضرورت نہیں اگر کسی سیلیبرٹی کی شادی ہو اور کوریج کی اجازت ہو تو کوریج کا طریقہ سنیں بریکنگ نیوز دولہے میاں 11:57 منٹ پر اٹھ گئے۔۔۔۔بریکنگ نیوز۔۔۔۔دولہے میاں کے لیے بھاٹی بازار سے چھولے منگائے گئے ہیں۔۔۔بریکنگ نیوز۔۔دولہے میاں کافی دیر سے لابی میں ٹہل رہے ہیں آپکی خاطر ہمارا نمائندہ بڑی مشکل سے آپکو لمحہ لمحہ کی کوریج دے رہا ہے۔
اسکے علاوہ لاہور دھماکے کے بعد ایک نجی چینل پر ٹاک شو کا عنوان۔۔کیا PSL کا فائنل اب بھی لاہور میں ہونا چاہیے۔۔۔ایسی خبروں اور تجزیوں سے پہلے کم از کم یہ دیکھنا چاہیے کے ہمارے چینل 72 ممالک میں دیکھے جا رہے ہیں ان پر ہمارے ملک کا کیا امپریشن پڑے گا اب میڈیا کی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ایک عدد میڈیا کا کارڈ اور ایک کیمرہ اٹھا کر اپ زرد صحافت کو نکل پڑیں۔ آپ آزاد ہیں اورچادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرتے پھریں ،ساتھ والے چینل پر تنقید اور پروفیشنل جیلسی دیکھاتے پھریں، یقین مانیں اس میں عوام کا کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔
ٹائر پھٹنے پر دھماکے کی اطلاع دیکر اسکی بعد میں اصلاح کر لی جاتی ہے۔ اصلاح کا آپشن ہرگز اس لیئے نہیں ہے بلکہ فنی خرابی کے لیے ہوتا ہے۔ اب خبروں کا 30% حصہ جلد بازی یا اینکر کی پیشن گوئی کی خبروں پر مشتمل ہوتا ہے ۔کچھ سنسنی خیز خبروں سے بچوں میں غلط روحجان فروغ پا رہاہے بڑوں میں برداشت کا فقدان ہو رہا ہے۔۔۔خبر خبر خبر۔۔۔ انکو اپنی خبر سے غرض ریٹنگ میں اول جو آنا ہے تو لگاوْ خبر عوام کا انٹرسٹ سیاست۔۔معیشت۔۔تجارت۔۔۔ ٹیکنالوجی۔امن اور دفاع میں ہے ان پر خبریں بنائیں! جو ہم عوام دیکھنا چاہتے ہیں