لاہور (ویب ڈیسک) سوچا حکم بجا لاتے ہوئے مثبت رپوٹنگ ہی کی جائے ورنہ مسئلہ تو کافی سنجیدہ بھی تھا اور سنگین بھی۔ وزیراعظم جب عمران خان ہوں، مثالیں جب ریاستِ مدینہ کی دی جاتی ہوں، معیار جب صادق اور امین ہونے کا ہو تو پھر اگر ریاست کا سربراہ کوئی ایسی بات کرے
نامور کالم نگار انصار عباسی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ جو غلط بیانی کے زمرے میں آتی ہو اور جسے مخالفین جھوٹ سے تشبیہ دیں تو پھر ایسے معاملہ کو ایک اخبار نویس کس طرح مثبت انداز میں پیش کرے کہ ’’کسی‘‘ کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ بہت سوچا، خبر مثبت بھی بنا دی لیکن جب اخبار میں شائع ہوئی تو حکومت کی طرف سے ردِّعمل نہ صرف منفی ملا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ پریس کونسل میں جانے کے لیے تیار ہو جائو۔ اب کیا کریں، کچھ سمجھ نہیں آتی۔ قارئین کرام کی خدمت میں اپنا کیس پیش کرتا ہوں، ہو سکتا ہے کوئی پڑھنے والا ہی کوئی مفید مشورہ دیدے۔حال ہی میں متعدد ٹی اینکرز کے ساتھ اپنے انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستانیوں کی بیرونِ ملک چھپی دولت کا پتا لگانے کیلئے 26ممالک کے ساتھ معاہدے کئے ہیں۔ اس معاملے کا کریڈٹ لیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ پچھلی حکومت نے ایسا کوئی ایک معاہدہ بھی نہیں کیا۔ ایک اخبار نویس کے طور پر جب حقیقت معلوم کی تو پتا لگا کہ خان صاحب نے جو کہا وہ حقائق کے برعکس اور بالکل غلط تھا۔
اب سوچا کہ کیسے مثبت خبر دی جائے کہ وزیراعظم پاکستان پر کوئی حرف آئے نہ کوئی اُنہیں غلط بیانی اور جھوٹ بولنے کا طعنہ دے سکے اور حقیقت بھی سب کے سامنے آ جائے۔ مثبت رپورٹنگ کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے خبر اس طرح بنائی کہ وزیراعظم عمران خان پر کوئی انگلی نہ اُٹھے۔ میں نے لکھا کہ وزیراعظم صاحب کو غلط اطلاع دی گئی ہے کہ اُن کی حکومت نے 26ممالک کے ساتھ معاہدے کئے ہیں۔ میری خبر کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستانیوں کی اربوں روپے کی دولت کا پتا لگانے کیلئے اب تک کوئی ایک معاہدہ بھی نہیں کیا، بلکہ جو انفارمیشن اس حوالے سے پاکستان کو ملنا شروع ہوئی ہے وہ ن لیگی حکومت کی جانب سے کیے گئے معاہدوں کا نتیجہ ہے۔ مثبت رپورٹنگ کرتے ہوئے میں نے وزیراعظم پر کوئی ذمہ داری ڈالنے کے بجائے لکھا کہ یہ واضح نہیں کہ کس نے وزیراعظم کو اس حوالے سے غلط معلومات فراہم کی جس کی وجہ سے انہیں شرمندگی اٹھانا پڑی، کیونکہ جس معاملے کا سہرا وہ اپنے سر لینے پر تلے تھے وہ دراصل ن لیگی حکومت کو جاتا ہے۔ میں نے یہ بھی لکھا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو غلط معلومات وزیراعظم کو فراہم کی گئی اُسے ان کے رفقا نے چیک بھی نہیں کیا،
جس کی وجہ سے عمران خان کے مخالفین کو انہیں بدنام کرنے کا موقع ہاتھ لگ گیا۔ لیکن اس مثبت رپورٹنگ کے جواب میں وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے میڈیا افتخار درانی نے سخت درعمل دیا۔ دی نیوز کے سینئر رپورٹر احمد نورانی سے بات کرتے ہوئے درانی صاحب نے میرے خلاف پریس کونسل آف پاکستان میں اس خبر پر شکایت درج کرانے کا فیصلہ سنایا۔ خبر کا عنوان تھا کہ کس نے وزیراعظم کو غلط معلومات فراہم کی افتخار درانی نے کہا کہ انصار عباسی کی خبر کی سرخی غلط تھی، جس سے دل آزاری ہوئی۔ درانی صاحب نے مزید کہا کہ یہ کہنا صریحاً غلط ہے کہ وزیراعظم کو غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافت کا معیار برے طریقے سے گر چکا ہے اور صحافیوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایشوز کو سمجھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صحافی حضرات کو ایشوز سمجھنے کا سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ درانی صاحب خصوصاً غلط معلومات کے لفظ سے بہت ناراض تھے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ خبر کی تردید کے لیے اُن کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا کیونکہ حقائق وہی ہیں جو خبر میں لکھے گئے۔ میں ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وزیراعظم کے مشیر برائے میڈیا کو کے لفظ میں ایسا کیا نظر آیا جس سے اُن کی دل آزاری ہوئی۔ میں نے مثبت رپوٹنگ کا تجربہ کیا، اپنے وزیراعظم کے بارے میں منفی بات کرنے کے بجائے جھوٹ اور غلط بیانی کو کسی تیسرے کے سر ڈال دیا لیکن اس کے جواب میں نہ صرف صحافت پر لیکچر سننا پڑا بلکہ یہ بھی دھمکی ملی کہ حکومت میرے خلاف پریس کونسل کوشکایت کرے گی۔ یہی نہیں‘ نجانے وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب جناب بیرسٹر شہزاد اکبر کو کیا ہوا کہ اُنہوں نے بھی اس خبر کی اشاعت کے بعد مجھ سے بات کرنا چھوڑ دی۔ ایسے ماحول میں مثبت رپورٹنگ بھی ہم ہی پہ بھاری پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔