تحریر : عماد ظفر
کامیابی ایک ایسا لفظ ہے جسے دنیا کا ہر شخص اپنے سے وابستہ دیکھنا چاہتا ہے. دنیا میں بستے اربوں افراد کامیابی کا خواب لیئے ہر آن اس کو حاصل کرنے کیلئے اپنے اپنے تئیں سعی کرتے ہیں. لیکن کامیابی سب کو نصیب نہیں ہوتی. مشہور سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کا کہنا تھا کہ کامیاب اور ناکام آدمی کے درمیان فرق صرف اپنی شکست کو تسلیم کر کے پھر سے آگے بڑھنے کا ہے.رچرڈ نکسن کہتے تھے کہ دنیا میں لاتعداد افراد ایسے ہیں جو صرف اپنی ناکامیوں کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے ناکام رہ جاتے ہیں. اگر غور کریں تو ناکامی کا ذائقہ تقریبا ہر شخص کو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر ضرور چکھنا پڑتا ہے.
دنیا کے بڑے بڑے شہرت یافتہ نام جو آج عزت دولت اور شہرت کے بلند مقام پر فائز ہیں ان سب نے بھی کسی نہ کسی دور میں ناکامیوں کا ذائقہ چکھا. آریانہ ہفنگٹن ایک مشہور زمانہ ادیب ہیں اور کڑوڑوں ڈالرز کی مالک.لیکن ایک دور ایسا تھا جب ان کی لکھی گئی تحریروں کو کوئی بھی پبلشر چھاپنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا.اخبارات اور پبلشرز آریسنہ کے لکھے ہوئے مسودے پھاڑ کر پھینک کر دیا کرتے تھے اور آج اسی خاتون سے ملاقات کیلئے انہیں وقت لینا پڑتا ہے اور اس کی لکھی ہوئی تحرویروں کو چھاپنا پبلشرز اور اخبارات اپنے لیئے اعزاز کا باعث سمجھتے ہیں. ایپل کمپنی کے مرحوم سی ای او سٹیو جابز کو 30 برس کی عمر میں ایپل کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے ملازمت سے نکال دیا تھا.سٹیو جابز نے ایپل سے نکالے جانے کے بعد ایک نئی کمپنی نیکسٹ کے نام سے کھولی.سٹیو جابز کے جانے کے بعد ایپل کو اس کی کمی شدت سے محسوس ہوئی اور سٹیو جابز کو دوبارہ ایپل میں بلا لیا گیا.
دوبارہ آنے کے بعد سٹیو جابز نے موبائل فون اور آئی ٹی ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور ایپل کو دنیا کی مضبوط ترین موبائل اور آئی ٹی کمپنی بنا دیا. آج بھی آئی فون اور میک استعمال کرنے والے سٹیو جابز کے کرشمے سے متاثر ہیں.اسی طرح بل گیٹس نے اپنے کیرئیر کی ابتدا میں ٹیرف او ڈیٹا کے نام سے ایک کمپنی بنائی لیکن اس کی بنائی ہوئی یہ کمپنی بری طرح سے ناکام ثابت ہوئی. اس نقصان کے بعد چند سال کیلئے بل گیٹس منظر عام سے غائب ہو گیا اور پھر مائکروسوفٹ نامی کمپنی متعارف کروائی. آج مائکروسوفٹ اور بل گیٹس کو کامیابی کی انتہا سمجھا جاتا ہے اور بل گیٹس کا شمار دنیا کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے. اسی طرح جارج سٹین برینر 60 کی دہائی میں ایک باسکٹ بال ٹیم کا مالک تھا اور چند ہی سال میں اس کے غلط فیصلوں کی وجہ سے اس کی ٹیم لگاتار شکستوں سے دوچار ہونے کے بعد بنک کرپٹ ہو گئی. 1980 میں جارج سٹین برینر نے تمام تر تنقید کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بیس بال لی فرنچائز نیو یارک یانکیز کو خریدا اور پھر آج نیو یارک یانکیز کا شمار دنیائے بیس بال کی کامیاب ترین اور امیر ترین فرنچائز میں ہوتا ہے.
امیتابھ بچن کا شمار بالی وڈ کے مایہ ناز اور عظیم ترین اداکاروں میں ہوتا ہے لیکن کیرئیر کی ابتدا میں امیتابھ بچن کے ساتھ کوئی ہدایتکار کام کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا اور اگر کوئی ہدایتکار راضی ہو بھی جاتا تو کوئی اداکارہ امیتابھ کی واجبی صورت کے باعث اس کے ساتھ بطور ہیروئن کام کرنے پر راضی نہ ہوتی تھی. آج وہی امیابھ بچن بالی وڈ کا سب سے بڑا اداکار کہلاتا ہے. اپنے کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کی مثال لے لیجئے. مصباح کو آج سے قریب 16 برس قبل جیفری بائیکاٹ نے ایک ٹریننگ کیمپ کے دوران کہا تھا کہ مصباح کبھی بھی بینالاقوامی کرکٹ نہیں کھیل سکتا کیونکہ نہ تو اس کے پاس تکنیک ہے اور نہ کوئی خاص ٹیلنٹ. مصباح نے بین القوامی کرکٹ میں قدم 34 برس کی عمر میں رکھا اس عمر میں اکثر کھلاڑی ریٹائرمنٹ کا سوچتے ہیں لیکن آج 42 سال کی عمر میں مصباح الحق پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کا سب سے کامیاب کپتان ہے اور پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کا کامیاب ترین مڈل آرڈر بیٹسمین. ان تمام کامیاب افراد کی فہرست بہت طویل ہے آپ جسے بھی اپنا آئیڈیل مانتے ہیں اس کی زندگی کے بارے میں ریسرچ کر کے دیکھئے آپ کو نجوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کامیابی کی کہانی کے پیچھے کہیں نہ کہیں وقتی ناکامیاں اور حوادث موجود ہیں. یہ تمام اشخاص جو کامیابی کی سیڑھیاں چڑھ کر تمام چیلنجز سے نبرد آزما ہوتے ہیں ان سب میں چند خصوصیات مشترک ہیں اور غالبا یہی خصوصیات انہیں تمام درپیش مسائل اور چیلنجز سے نبرد آزما کروا کر کامیابی کی بلندیوں سے ہمکنار کرواتی ہیں. ان میں سے اول خصوصیت کبھی ہمت نہ ہارنے کی ہے.
یعنی حالات و واقعات جتنے بھی مخالف ہوں اگر دھن اور لگن ہو تو ان پر قابو پایا جا سکتا ہے. اسی طرح ان تمام افراد میں ایک اور قدر بھی مشرک ہے اور وہ ہے مستقل مزاجی.دنیا بھر کے طعنے ان کی وقتی ناکامیاں اور مصائب کا پہاڑ بھی ان کی مستقل مزاجی کو ختم نہ کرنے پائے اور بالآخر ان افراد نے اس مستقل مزاجی کے باعث تمام تر مشکلات کو مات دیتے ہوئے اپنی اپنی منزل حاصل کی.اگر آپ غور کریں تو ان تمام افراد میں ایک اور قدر بھی مشرک نظر آئے گی اور وہ قدر ہے ہارنے کے بعد دوبارہ سے جیت کا عزم. گرنے کے بعد دوبارہ سے کھڑے ہونے کا عزم. صرف یہ چند خصوصیات طے کرتی ہیں کہ زندگی میں آپ کامیاب ہوں گے یا ناکام. یہ خصوصیات قدرت تمام انسانوں کو بخشتی ہیں لیکن ان خصوصیات کو استعمال کرنے کا ہنر اور حوصلہ انسان کی اپنی ذات تک ہوتا ہے.
کامیابی کیلئے رسک لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ وہ اقدام ہے جو کڑوڑوں افراد میں سے صرف چند فرد ہی اٹھا پاتے ہیں.ناکام ہونے کا خوف سب کچھ چھن جانے کا خوف بہت سا ٹیلینٹ ضائع کر دیتی ہے. برٹرنڈ رسل نے کہا تھا کہ دنیا کا 99 فیصد ٹیلنٹ محض لوگ کیا کہیں گے کے خوف یا ناکامی کے ڈر کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے. حالات کے مدو جزر کا سامنا دنیا میں آئے ہوئے ہر شخص کو کرنا ہی پڑتا ہے.مصائب کی بھٹی سے بھی تمام افراد کو گزرنا ہی پڑتا ہے.لیکن ان سے نبٹنے کیلیے ہمارے مزاج اور رویے طے کرتے ہیں کہ ہم میں سے کون کامیابیوں کی انتہا پر جائے گا اور کون دنیا کے باقی ماندہ اربوں انسانوں کی مانند عام زندگی بسر کر کے رخصت ہو جائے گا.
ہم اکثر اپنی مشکلات یا ناکامیوں کا ملبہ قسمت یا حالات پر ڈالتے دکھائی دیتے ہیں یا پھر جادو ٹونے اور تعویز گنڈوں کے چکر میں پڑ کے زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے بجائے وقت کو ان بے مصرف کاموں اور شکووں میں ضائع کر دیتے ہیں.اگر آپ بھی نامساعد حالات کا شکار ہیں یا پھر وقتی ناکامیوں کا تو شاید یہ قدرت کی طرف سے آپ کو کامیابی کی اونچائی تک پہنچانے کا ایک اشارہ ہے.اس اشارے کو بل گیٹس سٹیو جابز آریانہ ہفنگٹن جارج سٹین برینر امیتابھ بچن اور مصباح الحق سمجھ گئے تھے اس لیئے آج یہ سب سے نمایاں اور کامیابی کے افق پر چمکتے ہوئے ستارے ہیں. آپ کا شمار بھی کامیابی کے ان ستاروں میں ہو سکتا ہے.بس تھوڑا سا حوصلہ تھوڑا سا جنون اور خود پر یقین کی ضرورت ہے . اور یہ یقین کے زندگی ممکنات کا کھیل ہے ناممکنات کا نہیں، آپ کو بھی کامیابی کے افق پر چمکتا ہوا درخشندہ ستارہ بنا سکتی ہے.
تحریر : عماد ظفر