تحریر : عقیل احمد خان لودھی
ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اور انٹرنیٹ میں تھری جی اور فور جی کی دوڑ کے باوجود ڈاک کی اہمیت کم تو ہوئی لیکن ختم نہ ہوسکی، خطوطکا انتظار کرنے والے بھی کم ہوگئے ہیں مگر ختم نہیں ہوئے۔ ڈاکیے کا انتظار آج بھی ہوتاہے چٹھی کیلئے نہ سہی مختلف ضروری دستاویزات کی وصولی یا پارسل کیلئے ہی سہی۔آج بھی محکمہ ڈاک کو لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ابھی وہ نسل حیات ہے جن کاآپس میں روابط کیلئے ڈاک سے واسطہ رہا ہے وہ جانتے ہیں کہ ایک دوسرے کے خلوص ناموں کے انتظار میں اور پھر پریم پتر کی وصولی میں کتنا مزہ ہوتا تھا۔ ڈاک خانوں کا وجود آج بھی ایک خوبصورت، رومانوی سا سماں ذہن،دماغ کے پردہ پر باندھ دیتا ہے۔ صرف ڈاکخانوں کے لیٹر بکس دیکھ کر ہی ذہن کو سکوں ملتا ہے جو اس دور کی یاد دلاتے ہیں جب ہر طرف امن شانتی ہوا کرتی تھی اورخلوص،چاہت کے جذبات کاغذوں پر ہی دوردراز کا سفر کیا کرتے تھے الفاظ آواز اور تصاویر بن کرچاہنے والوں کے ذہنوںپر جم جاتے تھے۔ ڈاک کے نظام میں ڈاکیے(پوسٹ مین) کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جوموسم کی شدتوں اور ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرکے چٹھی پہنچاکر ہی دم لیتا ہے ایک زمانہ تھا کہ ڈاکیا محبتوں کا امین کہلایا کرتا تھا۔
گو آج ٹیکنالوجی نے ترقی کرتے ہوئے مواصلات کے کئی ذرائع متعارف کروادیئے ہیں مگر ڈاکئے کی اہمیت آج بھی تسلیم کی جاتی ہے لوگ ڈاکئے پر بھروسہ کرتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے پیاروں کو لکھے گئے پیغامات ضرور ہزاروں رنگ کے نظاروں میں بدل دیئے ہوں گے ،ڈاکخانے اور لیٹر بکس بھی کم ہوئے ہوں گے مگرڈاک کی اہمیت اب بھی اپنی جگہ برقرار ہے، ہزاروں خطوط، رجسٹریاں اورپارسل آج بھی ڈاکخانوں کا سنگ میل عبور کرکے منزل تک پہنچائے جاتے ہیں پوسٹل سروسز کو گزشتہ ادوار کی طرح آج بھی اہمیت حاصل ہے بالخصوص دیہی علاقوں میں جہاں آج بھی سہولتوں کا فقدان ہے اور دیہاتیوں کو کوریئر جیسی سروسز دستیاب نہیں۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج بھی پاکستان کے بیشتر دیہی ڈاکخانہ جات میں1500روپے ماہانہ اجرت پر کام لیا جارہا ہے اور یہ ڈاکخانہ جات قیام پاکستان سے آج تک شہریوں کو خطوط اور پارسل وغیرہ کی ترسیلات کا کام کررہے ہیں۔
ہزاروں لاکھوں افراد ان ڈاکخانوں کے قیام کی وجہ سے دنیا بھر کی پہنچ میں ہے مگرمحکمہ ڈاک کے چند دانشمندوں نے گزشتہ چند ماہ سے ایک کے بعد دوسرے ایسے ڈاکخانوں کو اپنی ہٹ لسٹ پررکھا اور پھر بھاری بھاری ان کی شامت یہ آئی کہ انہیں محکمہ پر بوجھ ظاہر کرکے بند کردیا گیا۔ مہذب معاشروں میں اداروں کا قیام اپنے عوام الناس کو سہولیات سے مستفید کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں گزشتہ چند ادوار سے ہر کام میں آمدن کم ہونے کا بہانہ کرکے ادارے فروخت کرنے یا بند کرنے کا واویلا مچا ہوا ہے۔ منافعوں کے نام پر ناقص پالیسیوں کے ذریعے شہریوں سے ایک کے بعددوسری سہولت چھین کر زندگیوں کو مشکل بنایا جارہا ہے۔
مختلف ادوار کے حکمرانوں اور اداروں کے ذمہ داروں کی ناقص پالیسیوں کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے ایسا ہی دیہی آبادیوں کے ڈاکخانوں کیساتھ ہوا ہے اور ان ڈاکخانوں کو آمدن نہ ہونے کا بہانہ بنا کر بند کردیا گیا ہے ۔ دیکھا جائے تو 5ویں سکیل کی پوسٹ کے ایک ملازم کی تنخواہ کے برابر بیسیوں ڈاکخانوں کا نظام چلایا جارہا تھااس طرح اتنی کم اجرت پر عوامی فلاح وبہبود کا کام کرنے والے ڈاکخانوں کی بندش کا فیصلہ کونسی عقلمندی ہے ۔ ایک طرف محکمہ ڈاک عوام الناس کو سال کے پورا دن چوبیس گھنٹے سروسز کے منصوبے چالو کررہی ہے ایسی سروسز کا آغاز وزیرآباد میں بھی کیا گیا ۔ایک طرف قومی ادارے محکمہ ڈاک کو منافع بخش بنانے کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری جانب شہریوں کو گھر گھر ڈاک کی فراہمی کی سہولت سے محروم کیا جارہا ہے۔موجودہ دور حکومت میں محکمہ ڈاک کے افسران کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بیشتر سب پوسٹ آفسز بند کردیئے گئے ہیں بند ہونے والے زیادہ تر پوسٹ آفسز میں ماہانہ1500/-روپے سے2000 روپے کے مشاہرے پر پوسٹ مین کام کررہے تھے اس طرح 5ویں سکیل کی پوسٹ کے ایک ملازم کی تنخواہ کے برابر رقم پر درجنوں پوسٹ آفسز کا کام چلایا جارہا تھا اور لوگوں کو بروقت سرکاری چٹھیاں،خطوط،رولنمبر سلپس اور دوسری اہم دستاویزات کی ترسیل کا سلسلہ چل رہا تھا مگر موجود ہ افسران نے خصوصی مہربانی کرتے ہوئے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی خاطر درجن سے زائد چھوٹے ڈاکخانوں کو بند کرکے ہزاروں لاکھوں افراد کو شدید مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔پوسٹ آفس دھونکل وزیرآباد کے زیر انتظام کام کرنے والے متعدد ڈاکخانے بند کردیئے گئے ہیں۔
انہی میں قیام پاکستان سے قبل قائم ہونے والے ڈاکخا نہ ویروکی کے بند ہونے سے علاقہ مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔پوسٹ آفس دھونکل کا عملہ ویروکی کے باسیوں کی ڈاک تقسیم کرنے کی بجائے دفتر میں ہی ضائع کردیتا ہے جس کی وجہ سے بیشتر طلباء وطالبات امتحانی ڈیٹ شیٹ ، رولنمبر سلپس بروقت موصول نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی سال گنوا بیٹھے ہیں اسی طرح عدالتی اور مختلف محکموں کی اطلاعات موصول نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔چند دن قبل پوسٹ ماسٹر جنرل پنجاب محمد اسلم خان نیازی وزیرآباد آئے اور انہوں نے ساراسال24گھنٹے متواترسروسز فراہمی کے نئے پلان کا آغاز کیا جہاں انہیں تحریری طور پر دیہی آبادیوں کے بند ہونے والے ڈاکخانہ جات کی صورتحال اور عوامی مسائل کے متعلق تحریری طور پر آگاہ کیا گیا۔
مگر ان کی طرف سے بھی عوام الناس کو ریلیف نہیں ملا اور ایک کے بعد دوسرا دیہی ڈاکخانہ بند کیا جارہا ہے محکمہ ڈاک کے ان اقدامات سے دیہی علاقوں کی عوام کے احساس محرومی میں اضافہ، حکومت کے خلاف نفرت پیدا ہورہی ہے کہ جمہوری ادوار میں عوامی حکومت کے ہوتے ہوئے انہیں سہولتیں دینے کی بجائے مزید مسائل پیدا کئے جارہے ہیں۔ وزیرآباد کے دیگر علاقوں بھروکی، منظور آباد، خسڑے وغیرہ میں بھی ایسے پوسٹ آفس بند کردیئے گئے ہیں متاثرہ علاقوں کے مکین پوسٹ آفسزکی بندش کے معاملہ پر شدید احتجاج کررہے ہیں مگر ان کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہورہی عوامی، سماجی حلقوں نے وزیر اعظم پاکستان سے صورتحال کا نوٹس لینے اور بند کئے جانے والے سب پوسٹ آفسز کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
تحریر : عقیل احمد خان لودھی