تھرپارکر……….تھرپارکر میں غربت اور تنگ دستی کے باعث مریض بچوں کی شہری اسپتالوں میں منتقلی سنگین مسئلہ بن گئی ، دوسری جانب بچوں کی اموات پر بھی قابو نہیں پایا جاسکا، گزشتہ روز بھی ایک کمسن دم توڑ گیا۔
غذائیت کی کمی اور اس سے متعلقہ امراض معصوم بچوں کی جانوں پر قہر بن کر آئے ہیں اور بچوں کی اموات کا سلسلہ اب تک نہیں رک سکا ہے، نئے سال کے پہلے 54 دنوں میں جاں بحق بچوں کی تعداد 170تک جا پہنچی ہے، دیہی علاقوں میں محکمہ صحت کی جانب سے قائم ڈسپنسریوں کی مجموعی تعداد 213 جبکہ ایک نجی این جی او کے اشتراک سے بھی 47 صحت مراکز قائم ہیں، جن میں سے اکثر بند ہیں اور عملہ نہیں ہے، جبکہ جو ڈسپنسری فعال ہیں وہاں بھی صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ مالی وسائل کے باعث دور دراز کے دیہی علاقوں کے مریض بچوں کی اسپتال منتقلی بھی سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔مشکلات کا شکار لوگ بتاتے ہیں کہ ضلع میں ڈاکٹروں کی 88 آسامیاں خالی ہیں جبکہ طبی عملہ کے 4 سو سے زائد ارکان کی تعیناتی بھی نہیں ہوسکی ہے ۔ ضلع میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد 653 ہے جبکہ 103 دائیاں بھی موجود ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس اہم افرادی قوت کو تربیت دے کر صحت کی سہولتیں گھر گھر پہنچائی جاسکتی ہیں۔علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ تھر کے مسائل پر قابو پانے کے لئے حکومت ٹھوس اقدامات یقینی بنائے ، خواتین عملے کی تربیت کے ذریعہ بھی صحت کی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنا کر بچوں کی اموات کی شرح کو کم کیا جاسکتا ہے۔