تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
دنیا میں ہر سال 17 اکتوبر کو غربت کے خاتمے کا عالمی د ن منایا جاتا ہے۔یہ دن سب سے پہلے 1987 کو فرانس میں منایا گیا ،جب لیبرٹی پلازہ کے گرد ایک لاکھ لوگ جمع ہوئے، ا س مقصد کے تحت کہ غربت بھوک کے ستائے انسانوں کی آواز بلند کی جا سکے ۔پھر اس دن کی 1993 اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں باقاعدہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔جس کا ماٹو تھا” جب بھی انسان انتہائی غربت میں رہنے پر مجبور ہوگا تو یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ ہم سب کو مل کر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہ حقوق سب کو فراہم ہوں، یہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے ۔”اس کے علاوہ اس دن کو منانے کا مقصد پوری دنیا میں غربت کے خاتمے کیلئے عالمی برادر ی میں احساس پیدا کرنا ہے ۔ اس دن کی اہمیت کے پیش نظر مختلف فورم پرسیمینار، مذاکرئوں، مباحثوں اور خصوصی پروگرامز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
پاکستان سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے، پاکستان میں وہ صبح آ سکتی ہے ،جس کا ذکر ساحر لدھیانوی نے کیا ہے صرف چند اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں مثلاََ سب سے پہلے حکومت کی پالیسی بدلنا ہو گی، کیونکہ چاہے جو بھی حکومت رہی ہو اب تک حکومت کو ا یک عام آدمی کے مسائل سے دلچسپی ہی نہیں ہے ،اور نہ ہی ایوانوں میں اس بات کی ضرورت محسوس کی جاتی کے عام آد می کے مسائل کے حل سے متعلق قانون سازی کی جائے۔غریب کو بھاری ٹیکس ،مہنگائی ،بے روزگاری سے مارا جا رہا ہے ۔غربت کی بجائے غریب کا خاتمہ ہر حکومت کی پالیسی ہے ۔حل یہ ہے کہ عام افراد کی ضرورت کی بنیادی 20 اشیاء جن میں چینی ،گھی ،دالیں سبزی،بجلی،کپڑا،کتابیں ،ادویات وغیرہ انتہائی کم نرخوں پر دستیاب ہوں ۔دیگر اشیاء پر اتنا ہی ٹیکس بڑھایا جا سکتا ہے جو صرف امراَ کے استعمال کی ہیں ۔دوسرا قدم کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، غربت کی ایک اور وجہ کرپشن ہے ، اوپر سے نیچے تک تمام ادارے اس گھناؤنے فل میں ملوث ہیں۔ انصاف دینے والی عدالتیں پولیس وغیرہ۔اس کا حل صرف قانون کا نفاذ ہے ،عدل و انصاف میں تیزی ہے احتساب ہے۔
ایٹمی طاقت کے حامل پاکستا ن کی 50 فیصد آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ،جہاں ہر دوسرا فرد غربت کا شکار ہے ۔مہنگائی اور بے روزگاری روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور حکمران کہتے ہیں کہ غربت ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔حالانکہ چند سال سے غربت کی سطح میں بھیانک اضافہ ہوا ہے ۔چشم فلک نے ان چند سال میں دیکھا کہ لوگ غربت سے تنگ آ کر خود کشیاں کر رہے ہیں ،اپنے بچوں کو فروخت کرنے کے لیے بازار میں آ گئے ،ماں نے بھوک سے تنگ آ کر اپنے بچوں کو قتل کر دیا ،لوگ جرائم کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ سابقہ چیف جسٹس نے کہا تھا ،ہمارے ملک میں غربت سب سے بڑا جرم ہے ،جھوٹ ،ملاوٹ ،دھوکہ دہی ،ڈاکہ ،چوری اور بھیک مانگنا یہ سب شوق سے نہیں کر رہے ، گردوں کے علاوہ اس غربت کے ستائے لوگ اپنی عزت تک بیج رہے ہیں ،
کتنا مجبور کتنا لاچار بنا دیتی ہے یہ غربت
انسان کو حیوان بنا دیتی ہے یہ غربت
غربت کے خاتمے کا تعلق ملک کی ترقی سے جڑا ہے، کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس ملک کے بے روزگار افراد کو روزگا ر نہ دیا جائے اور جب ملک کے ہر فرد کو اس کی صلاحیت کے مطابق روزگارمل جائے تو غربت خود بخود ختم ہو جاتی ہے ۔ہر حکومت دعوے تو کرتی ہے لیکن صرف دعوے ہی کرتی ہے، پاکستان کے لیے یہ ایک بدقسمتی ہے کہ اس ملک پر اقتدار ان چند خاندانوں کو ہی ملا جنہوں نے اس کے وسائل کو بے دردی سے ا ستعمال کیا اور اپنے کاروبار اور اولاد کو اس ملک سے باہر دیگر ممالک میں جمایا ،ایسے حکمرانوں کو جن کا سب کو بیرون ملک ہو جو صرف پاکستان میں حکومت کرنے کے لیے تشریف لائیں اور جب حکومت میں بھی ہوں تب بھی زیادہ عرصہ ملک سے باہر گزرے اپنے کاروبار کے تحفظ کے لیے ایسے ملک میں کیونکرکرپشن ،مہنگائی،ناانصافی کو روکا جا سکتا ہے، حیرت عوام پر بھی ہوتی ہے، جو مسلسل ان کو ہی ووٹوں کے ذریعے منتخب کر تی ہے۔
اگر حکمران واقعی عوام کے ساتھ مخلص ہوں تو عوام کو روزگار مہیا کریں اپنے اثاثہ جات اپنے ملک میں لائیں ،یہاں سرمایہ کاری کریں ،عوام کو چاہیے ایسے حکمرانوں کو ووٹ بالکل نہ دیں جن کے اثاثے یا اولاد بیرون ملک ہو اتنی سی عقل و شعور جس دن عوام کو آ گیا ،اس دن ملک سے غربت خود بخود ختم ہو جائے گی۔ایک طرف ہمارے حکمران عوام کو تو صبر کی تلقین کرتے ہیں دوسری طرف اپنی شہ خرچیوں میں کمی نہیں لاتے۔دنیا میں غربت کا حقیقی چہرہ بہت بھیانک ہے، دوسری طرف جو امیر ہیں ،وہ اتنے امیر ہیں کہ ان کو اپنی دولت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔یہ دو انتہائیں ہیں ۔ مثلاََاس خبر کو دل تھام کر سنیں کہ اندازََ70کروڑ 50لاکھ لوگوں سے زائد آبادی پر مشتمل 41 مقروض ممالک کی مجموعی جی ڈی پی دنیا کے 7 امیر ترین لوگوں کی مجموعی دولت سے کم ہے ۔ غربت کا دنیا سے خاتمہ ہو اس کا خواب ہر انسان دیکھتا ہے جس میں اس موضوع پر طبقاتی تقسیم پر ساحر لدھیانوی نے کہا ہے۔
مجبور بڑھاپا جب سْونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن سْولی نہ دکھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
۔آج کل خط غربت کا بڑھا چرچا ہے یہ غربت کی لکیر کیا ہے، اس کا دوسرا نام خط غربت ہے ،یہ کہاں سے شروع ہوتی ہے، کہاں ختم ہوتی ہے ۔کہا جاتا ہے پاکستان کی نصف آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔باقی میں سے جو اس لکیر کے عین اوپر زندگی گزار رہے ہیں، ان کو متوسط طبقہ کہا جاتا ہوگا ۔
لیکن ایک بات طے ہے کہ خط غربت کے اوپر زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد اتنی نہیں ہے، جتنی تعداد اس لکیر کے نیچے گزارنے والوں کی ہے ۔ہم اپنے ملک کے سیاست دانوں کو خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی ہمدردی سے لبریز تقاریرکرتے سنتے ہیں، حالانکہ ہمارے ملک کے حکمران اور سیاست دانوں کا تعلق خطِ غربت سے دور کا بھی نہیں ہے، ان کو یہ تو معلوم ہو گا کہ خط غربت کیا ہوتا ہے، لیکن غربت کا کوئی علم نہیں ہے ۔ غربت کی پیمائش کے لیے ایک پیمانہ مقرر کیا گیا ہے۔دو امریکی ڈالر ،ایک امریکی ڈالر ،اڑھائی امریکی ڈالر یہ پیمانہ جگہوں، ممالک اور اقوام کے لحاظ سے بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
اب اگر ایک انسان (مرد یا عورت) کی آمدن اس خط سے نیچے ہے تو وہ بجا طور پر غریب کہلانے کا حقدار ہے۔لیکن میرا خیال ہے غربت کی پیمائش کا یہ پیمانہ درست نہ ہے پیمانہ مہنگائی کے حساب سے ہونا چاہیے کہ کس ملک میں کتنی مہنگائی ہے ،کرنسی کے ریٹ کے تناسب کے حساب سے مہنگائی مثلا ایک ہی جنس امریکہ ،بھارت ،چین پاکستان میں کس نرخ پر دستیاب ہے، اس ملک کی کرنسی ویلیو کیا ہے ،مہنگائی کا تناسب کیا ہے، ان سب کو سامنے رکھ کر خط غربت کی پیمائش کا پیمانہ ہونا چاہیے ۔کیونکہ اگر ہم دو امریکی ڈالر ایک فرد کی روزانہ آمدن کو خط غربت سے اوپر یعنی متوسط درجہ مان لیں تو اوسط پاکستان میں سات ہزار کمانے والا غریب نہیں ہوگا ۔لیکن دنیا کا کوئی معیشت دان ایک کنبہ کا ماہنامہ بجٹ سات ہزار میں بنا کر نہیں دے سکتا ۔ اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو ثابت کریں اور حقیقی حل پیش کریں۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال