انسان فطرطاََ بے صبرا اور نا شکرا پیدا کیا گیا ہے ۔ اسے دنیاو جہاں کے تمام خزانے بھی عطا کر دئیے جائیں تب بھی یہ زیا دہ کی خواہیش کرے گا ۔ اور انسان کا پیٹ بس قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے ۔اس کے علاوہ دنیامیں موجود تو بہت کچھ ہے البتہ انسان کی نطر ہمیشہ اس چیز پر ٹھہرتی ہے جس تک اس کی رسائی ممکن نہ ہو یعنی آسانی سے وہ ناشکرا پن دکھا سکے ۔زندگی کی بہت سی ایسی تلخ حقیقتیں ہیں جن کو جتنی جلدی مان لیا جا ئے زندگی اتنی ہی جلدی آسان ہو جاتی ہے۔اسی طرح انسان اگر اپنے نصیب پر خوش ہو جائے تو اللہ توراضی ہو ہی جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ زندگی میں بہت سی آسانیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں ۔یعنی انسان اپنی زندگی کے بہت سے مسائل صرف اپنے نصیب پر راضی ہو کے حل کر سکتا ہے۔پھر جب ہم اس کے تھوڑے دیئے پر راضی ہو جائیں گے تو وہ قیامت کے روز ہمارے تھورے کیئے پر راضی ہو جائے گا۔معاشرے میں اگر غربت کو دیکھا جائے تو بہت عام سی بات سمجھی جاتی ہے ۔ہر انسان کی زندگی میں مسائل کا ڈھیر ہے۔ہر شحض گھر سے ایک نقاب چڑھا کر نکلتا ہے اور بچوں کے بہت سے معصوم خواب آنکھوں میں لیئے کچھ محنت مزدوری کرتا ہے ۔ مگر دن بھر کی تگ ودو کے بعد شاہد وہ دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتا۔اس میں اس کا کو ئی قصور نہیں ۔ ہاں! اگر وہ بغیر محنت کے وہ کچھ حاصل کرتا ہے تو وہ یقیناًقصور وار ہے ۔مگر جب اپنی ہمت سے بڑھ کر محنت کرو اور معاوضہ اتنا بھی نہ ملے کہ وہ اپنا گھر بھی نہ چلا سکے تو انسان کو دکھ ہوتا ہے تو انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا مگر و غلط کرتا ہے اللہ جسے چاہتا ہے اسے اتنا ہی نوازتا ہے ۔ اس لیے ہمیں اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے غربت بھی اللہ کی ایک نعمت ہے۔نعمتیں شکر ادا کرنے کے لئے ہوتی ہیں ۔ گھر کا چولہا کیسے جلے گا ؟ کے سوال کے جواب میں آپ کی پریشانی یقیناًہے مگر جس رب کائنات نے ہمیں پیدا کیا ہے اسی نے ہمیں رزق ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ جو ہم سوال کرتے ہیں ان کے جواب بھی رب کائنات کی بنائی ہوئی چیزوں میں ہیں مگر ہم سوال کرنا جانتے ہیں پر اس کا جواب نہیں جاننا چاہتے ۔جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ ہمیشہ رب کائنات کی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں اور پھر وہی لوگ اسے غربت کا نام دیتے ہیں ۔ایک غریب انسان کی سوچ دنیا کے امیر ترین لوگوں سے بہت بالا تر ہوتی ہے ۔غریب شام کوسکون کی نیند سوتا ہے جبکہ امیر نیند کی گولیاں کھا کر بھی سکون کی نیند نہیں سو سکتا ۔یہی غریب وامیر کی زندگی میں فرق ہوتا ہے ۔ غریب کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تو وہ رات کو سکون کی نیند سوتا ہے اورامیر کہ پاس سب کچھ ہوتے ہوئے وہ سکون کی نیند نہیں سو سکتا۔ہمارے ملک میں بد قسمتی سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ جو انسانوں کو ان کے لباس اور دولت سے جانتے ہیں اگر کوئی خوبضورت لباس زیب تن کر کے آ جائے تو اس کی حد سے زیادہ عزت کی جاتی ہے یہ نہیں دیکھا جاتا اس قمیتی لباس میں جو انسان ہے وہ اصل میں کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسے ’’الف سے ب‘‘ تک کا بھی علم نہ ہو ۔۔۔
ہمارے ملک میں ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا ہے ا میر کی آواز کو بڑھاوا دیا جاتا ہے جب کہ غریب کی آواز کو امیر کی آواز بند کر دیتی ہے۔۔ممکن ہے کہ کوئی پیسے والا خود کو دنیا کا غریب ترین انسان سمجھتا ہو اور کوئی غریب جس کہ پاس کچھ بھی نہ ہو مگر وہ رب کے دیئے پر راضی ہو اور امیر انسان کی نسبت زیادہ پرسکون زندگی گزرا رہا ہو۔ لہذا زندگی کا تجربہ اور محدود سی دنیا میں جتنا سفر گزرا اس سے یہی نتیجہ نکلا ہے کہ غربت بھی ایک نعمت ہے ۔ جو ہر کسی کہ نصیب ہیں نہیں ہوتی ۔
یہ بھی نعمت خدا اپنے خاص بندوں کو نوازتا ہے ۔