بجلی اور پانی کے بحران کی وجوہ جو بھی ہوں، ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امن و امان کے خدشات کے باعث اس باب میں ہنگامی تدابیر کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ ملکی معیشت کا انجن کہلانے والے شہر کراچی میں شدید گرمی کی کیفیت کے دوران بارہ بارہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے عام لوگوں پر جو بیت رہی ہے اس کا پوری طرح اندازہ کرنا ان نصیب وروں کے لئے شاید ممکن نہ ہو جن کے عشرت کدے موسم اور حالات کی بے مہری سے محفوظ رہتے ہیں۔تاہم صنعتوں اور کاروبار پر مرتب ہونے والے ان اثرات کا بہر طور اندازہ ہونا چاہئے جن کا ٹیکسوں کے حجم اور کاروبار مملکت و حکومت سے براہ راست تعلق ہے اور جب حقائق یہ ہوں کہ بات صرف ایک شہر کراچی تک محدود نہ ہو بلکہ ملک کے بیشتر علاقے پانی اور بجلی کے بحران سے کم و بیش متاثر ہوں تو زیادہ بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فنی وجوہ کی تفصیلات میں عام لوگوں کو الجھانے کے بجائے اعلیٰ حکومتی حلقے متعلقہ محکموں اور نجی کمپنیوں کے ساتھ ملکر ایسے پلان پر کام کرتے نظر آئیں جس کے ذریعے فوری طور پر بجلی و پانی کے بحران کو گھٹا کر قابل برداشت حدود میں لانا اور دیرپا حل کی طرف پیش قدمی کرنا ممکن ہو۔ پانی بقائے زندگی کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اس کے بغیر کسی قسم کی حیوانی و نباتاتی زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ ضرورت کے مطابق اسکی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اعلانات اور دعووں سے آگے بڑھ کر اس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا چاہئے کہ بین الاقوامی دریائوں سے اپنے حصے کا پانی لینے، دستیاب پانی کی حفاظت کرنے، اسے صاف ستھرا رکھنے، بارشوں اور سیلابوں سے حاصل ہونے والی اس نعمت کو ذخیرہ کرنے، زیر زمین آبی ذخائر تلاش کرنے، سمندری پانی کو آلودگی سے بچا کر آبی حیات کو محفوظ رکھنے اور نمکین پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کیلئے کیا تدابیر کی گئیں اور کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ بات قوم کے ساتھ مذاق نہیں کہ ایک ایک آبی منصوبے کی کئی کئی حکومتوں کے دوران بار بار منظوری دی جاچکی اور کئی کئی بار افتتاح ہوچکا ہے مگر معاملات جہاں کے تہاں نظر آرہے ہیں۔ پانی اور بجلی کا بحران اگرچہ ملک بھر کے لوگوں کے لئے تشویش کا باعث ہے مگر کراچی چونکہ صنعتی و کاروباری مرکز ہے اور ملک کی مجموعی معیشت کی نمو میں اس کا کردار نمایاں ہے اسلئے اسکا حوالہ نہ صرف ضروری ہو جاتا ہے بلکہ اس حوالے میں ملک کے وہ بیشتر شہر اور قصبے خود بخود آجاتے ہیں جنہیں اسی نوع کے بحران کا سامنا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں اس کے چیئرمین کی حیثیت سے سندھ حکومت سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر کراچی میں واٹر ایمرجنسی ڈکلیئر کرے۔ اس ضمن میں انہوں نے وزارت آبی وسائل اور اسکے ذیلی ادارے سکھر بیراج سے کہا ہے کہ دو سے ڈھائی ہزار کیوسک پانی مزید چھوڑا جائے۔ ایسی صورت میں کہ تین بڑے آبی ڈیموںمیں پانی کا ذخیرہ صرف 3لاکھ ملین ایکڑ فٹ سے کچھ ہی زیادہ رہ گیا ہے، انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا فوری اجلاس بلانا ضروری ہوگیا ہے تاکہ مئی میں پانی کی صورتحال بہتر ہونے تک عبوری انتظامات کئے جاسکیں۔ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے حوالے سے شکایات اگرچہ پرانی ہیں مگر ماضی میں اضافہ آبادی، نئی صنعتوں کے قیام اور زرعی مقاصد کیلئے بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق مناسب منصوبہ بندی کا فقدان رہا جس کے باعث یہ مسئلہ عشروں سے سنگین تر ہوتا چلا گیا ہے۔ جہاں تک کراچی کو بجلی کی ترسیل کے ذمہ دار ادارے ’’کے الیکٹرک‘‘ کا تعلق ہے اسے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی بحران کاذمہ دار قرار دیا ہے، مگر مسئلے کا حقیقی حل یہ ہے کہ اس بحران کی وجوہ کو ختم کیا جائے۔ عام آدمی کو فنی عوامل یا اداروں کے ایک دوسرے پر الزامات سے غرض نہیں، اُسے مسائل کا حل چاہئے۔ بجلی کراچی، لاہور، فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ اور دیگر تمام شہروں کو ان کی ضرورت کے مطابق ملنی چاہئے تاکہ پاکستان بھر کے ٹیوب ویل کام کرتے رہیں، کارخانے چلتے رہیں اور ملک کے ہر حصے میں معمول کی زندگی رواں دواں رہے۔