کوئٹہ………مری معاہدے کے تحت بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کےبعد اقتدار نواب ثنا اللہ زہری کو منتقل ہوگیالیکن صوبائی کابینہ دو ہفتے بعد بھی تشکیل نہیں دی جاسکی۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کےبلوچستان میں ڈھائی سالہ دوراقتدار میں طے شدہ فارمولے کے تحت مخلوط کابینہ میں مسلم لیگ ن کے پاس سینئر وزیر سمیت پانچ وزارتیں اور دو مشیر، پشتونخواہ میپ کے چار وزرا اور دو مشیر اور نیشنل پارٹی کے بھی چار وزیراور ایک مشیر جبکہ ق لیگ کا ایک وزیرشامل تھا۔ 23دسمبر کو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے وزارت اعلیٰ کامنصب چھوڑا تو ان کے مستعفی ہونے کے بعد 14وزرا اور چار مشیروں پر مشتمل صوبائی کابینہ بھی فارغ ہوگئی ۔ڈاکٹر عبدالمالک کےمستعفی ہونے کے اگلے ہی دن 24دسمبر کو نواب ثنا اللہ زہری نے وزارت اعلی کا منصب تو سنبھال لیا ،تاہم ان کی کابینہ اب تک تشکیل نہیں دی جاسکی۔ن لیگ کی اتحادی پشتونخواہ میپ اور نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ وزارتوں پر ان کی جماعتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ نیشنل پارٹی کےسیکرٹری جنرل میر طاہر بزنجو کا کہنا ہے کہجہاں تک ہماری جماعت کا تعلق ہے، میں کوئی چیز چھپانا نہیں چاہتا، ہمارے وہی منسٹرز ہیں جو پہلے تھے ان میں کوئی تبدیلی نہیں لارہے، ہم نے اپنی لسٹ پہلے ہی حوالے کردی ہے۔مخلوط صوبائی حکومت میں شامل پارلیمانی جماعتوں کےذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے پاس وزارتیں پہلے والی ہی رہیں گی تاہم وزیروں میں ردوبدل ہوسکتاہے،،یہ یقین دہانی بہرحال نواب ثناء اللہ زہری بھی کراچکے ہیں۔وزیراعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا ہے کہ منسٹریان تو وہی رہیں گی ،ہمیں بھی اختیار ہے کہ ہم نئے لوگ شامل کریں کابینہ میں یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ اپنے پرانے لوگوں کو رکھیں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی مخلوط کابینہ میں طے شدہ فارمولے کے تحت وزارت اعلیٰ لیگ کو ملنے کے بعد بھی وزارتوں کی تقسیم کا فارمولہ وہی رہے گا ،یا اس میں کوئی تبدیلی ہوگی؟یہ تو وقت ہی بتائے گا،مگر یہ حقیقت ہے کہ اب تک وزارتوں کا اعلان نہ ہونے سے عوامی مسائل کا حل تو تعطل کا شکار ہوا ہی ،اس کے ساتھ ساتھ اتحادی جماعتوں میں اس سلسلے میں اتفاق پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں ۔