تحریر : ایس ایم عرفان طاہر
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمال صدق و مروت ہے زندگی ان کی معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
قلندرانہ ادائیں سکندرانہ جلال یہ امتیں ہیں جہا ں میں برہنہ شمشیریں
خو دی سے مرد خود آگا ہ کا جمال و جلال کہ یہ کتاب ہے باقی تمام تفسیریں
شکوہ عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن قبول حق ہیں فقظ مرد حر کی تکبیریں
حکیم میری نوائوں کا راز کیا جانے ورائے عقل ہیں اہل جنوں کی تدبیریں
اسلامی جمہو ریہ پاکستان کی بنیا د ان اغراض و مقاصد پر ہر گز نہیں رکھی گئی تھی جن کی عملی شکل آج دکھائی دے رہی ہے ، افغانستان ، فلسطین ، عراق ، شام اور بہت سے ممالک کی تا ریخ جنگ و جدل ، بد امنی ، انسانی حقوق کی پامالی ، افرا تفری اور درنگی سے بھری پڑی ہے وہا ں پر بارود اور سلحے کی نمائش عام ہے وہا ں پر عدل و انصاف کو بارہا پامال کیا جاتا رہا ہے اور ان سب کے بر عکس جس اسلا می جمہوریہ پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ اور ایک نظریاتی ریاست کے طور پر رکھی گئی اس کا مقصد بڑا واضح اور دوٹوک تھا کہ یہا ں پر اکثریت مسلم عوام اپنی فطری آزادی کے تحت اپنے عقائد ، نظریا ت اور اطوار کے ساتھ ایک عالی شان اور آزادانہ زندگی بسر کریں جن کا ایک اپنا قانون ہو ، نظریہ ہو ، مذہب ہو اور یہا ں بسنے والی اقلیتیوں کو بھی اسلامی اصولو ں اور نظریا ت کے باعث رہنے کی آزادی ہو قتل و غارت گری ، کرپشن ، بد دیانتی ، جھوٹ ، فریب ، دھوکا دہی ، بے
ایمانی ، مہنگائی ، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ، بھتہ خو ری ، دہشتگردی ، انتہا پسندی ، ظلم و تشدد ، نا اتفاقی ، خود کش حملو ں ، دوسروں کے حق پر ڈاکہ اور محض چند خاندانوں کی اقتدار تک رسائی اور عیش و عشرت کے لیے یہ ملک نہیں بنا تھا جس میں نہ توکسی عورت کی عزت محفوظ ہے نہ ہی غیر ت و حمیت نہ تو عدل و انصاف دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی آئین و قانون طاقتور کمزور کو موقع ملتے ہی نگل جانے کے لیے تیا ر ہے نام نہا د شریعیت ، عقائد نظریا ت اور فرقوں کی جنگ میں نہ جا نے کتنے ہی لو گ جل رہے ہیں انتہا پسندی ، دہشتگردی ، شدت پسندی اور نفرت کی علامتیں طالبان ظالمان ہوں یا داعش بدمعاش ہر سمت ایک خوف ظلم اور بربریت کی زندہ تصویر دکھائی دیتی ہے حکمران طبقہ اخلاص ، دیانتداری اور ایمانداری سے عاری اپنی دھن میں اپنا بینک بیلنس بنا نے میں مصروف ہے ٦٢ یا ٦٣ جیسے قوانین اور آئین کو عملی جامہ پہنانے والی عدالتیں بھی کٹ پتلی بنی ہو ئی ہیں یہا ں پر صدر مملکت سے لیکر چیف جسٹس تک کسی کو بھی خریدا اور فروخت کیا جا سکتا ہے
جس نگر میں علمائ و مشائخ اور امن کی با ت کرنے والو ں کو بارود سے اڑا دیا جا تا ہے جس دیس میں اقلیتوں کو زندہ جلا دیا جا تا ہے ، جس دیس میں بھوک افلاس روز ہی ایک گھر کا چراغ بھجا دیتی ہے جہا ں محنت کشو ں کو بیچ چڑاھے کوئی لو ٹ کر لے جاتا ہے جہا ں حوائ کی بیٹی کی سرعام عزت نیلام کر دی جا تی ہے جہا ں ہر روز ہی انسانی حقوق کی دھجیا ں بکھیری جا تی ہے جہا ں پر شباب و شراب کی محفلیں پارلیمنٹ میں سجائی جا تی ہیں جہا ں ہر روز نئی شریعیت متعارف کروائی جا تی ہے جہا ں رسول اللہ کے چا ہنے والو ں کے گلے کاٹے جا تے ہیں جہا ں انسانی زندگی سے زیاہ دولت و امارت کو سمجھا جا تا ہے جہا ں شادی بیا ہ کے نام پر روز ہی دو جسموں کا سودا کیا جا تا ہے جہا ں جہیز کی لعنت کئی بیٹیو ں کو ماں باپ کے گھروں میں بوڑھا کر دیتی ہے جہا ں پر صوبا ئی ، علا قائی ،لسانی اور نہ جا نے کتنے ہی تعصب انسانوں کو نگل جا تے ہیں
جہا ں پر ہر روز ہی کسی نہ کسی شہر میں بارود ، بم دھماکو ں اور قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں اپنی زندگی کی با زی ہا ر جا نے والوں کے گھروں میں صف ماتم بچھائی جا تی ہے ، جہا ں پر کرپشن ، اقرابائ پروری اور موروثیت نے سیاست کا رخ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے جہا ں پر قومی مفادات کی بجا ئے ذاتی مفادات کو ترجیح دی جا تی ہے کیا یہ ہے ہما رے پیا رے قائد محمد علی جنا ح کا پاکستان ؟ کیا اس پاکستان کے لیے انہو ں نے اپنی عیش و عشرت اور سکون سے بھری زندگی کی چھوڑ دیا ؟ کیا اس سلطنت کے قیام کا ادھورا خواب انہو ں نے تعبیر کیا تھا ؟ کیا اس پاکستان کے لیے لاکھو ں جانو ں کی قربانیا ں پیش کی گئی تھیں ؟ کیا اس پاکستان کے لیے بر صغیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ؟
قائد کے نظریا ت افکا ر اور کردار کو جھٹلا نے والے آج سرخرو اور انکے پیرو کا ر شرمندہ دکھائی دیتے ہیں وہ قائد جو ٢٥ دسمبر ١٨٧٦ کو کرچی میں پیدا ہو ئے آپ کا نام محمد علی جنا ح تھا آپ کے والد پونجا جنا ح اور والدہ مٹھی بائی تھیں آپ کی تین بہنیں مریم ، شیریں اور فاطمہ اور تین ہی بھائی احمد علی ، بندے علی اور رحمت علی تھے ۔آپ اپنے گھر میں سب سے بڑے تھے آپ کے والد محترم گجرات کے نامور تاجر تھے ما دری زبان گجراتی البتہ سندھی ، کچھی انگریزی اور اردو پر بھی عبور حاصل تھا ١٦ برس کی عمر میں بمبئی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اسکے بعد ایک برطانوی کمپنی میں ملا زمت اختیا ر کر لی آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کی شادی دور کی رشتہ دار ایمی با ئی کے ساتھ کرادی اور یہ رشتہ طویل نہ چل سکا محترمہ کا انتقال ہوگیا آپ برطانوی کمپنی کے ہمراہ مزید تربیت کے حصول کے لیے برطانیہ منتقل ہو گئے جہا ں پہنچ کر آپ نے دوبارہ تعلیم کا ارادہ باندھا اور لکن لائ کالج لندن میں اس لیے داخلہ لیا کے وہا ں بورڈ پر دنیا کے سب سے اعلیٰ قانون دانو ں میں سب سے اوپر حضرت محمد کا نام لکھا ہوا تھا۔
قیام لند ن کے دوران ہی والدہ بھی چل بسیں شریک حیا ت کے بعد والدہ ماجدہ کی وفات نے آپ کو انتہائی غمزدہ کردیا والدہ کی بے حد عزت و احترام اور ان سے پیا ر کرتے تھے ان کی والدہ نے مرنے سے قبل اس با ت کی پیشن گوئی بھی کی تھی کے محمد علی جنا ح ایک بہت بڑا کام کریں گے جو بعد میں پورا ہوتا بھی دکھائی دیا ، لند ن سے ١٨٩٥ میں محض ١٩ برس کی عمر میں با ر ایٹ لائ کی ڈگری حاصل کی آپ اس طرح سب سے کم ترین ہند و ستانی با ر ایٹ لا ئ تھے اسکے بعد جب وطن واپس پہنچے تو آہستہ آہستہ ہندوستان کی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا کیونکہ برطانیہ کی سکونت نے آپ کا ویثرن بہت بلند کردیا تھا اور اس ماحول اور کامیاب معاشرے کا قیام اپنے وطن میں بھی عملی سطح پر چا ہتے تھے آپ ابتدائی احوال میں آزاد اور خود مختار ہندوستا ن کے حامی تھے اور آپ کی نظر میں انگریزو ں سے آزادی حاصل کرنے کا بس قانونی اور آئینی راستہ تھا آپ جنگ و جدل اور ہتھیاروں کے قائل نہ تھے ، پہلے آپ کچھ عرصہ کانگریس کے ساتھ وابستہ رہے
انہی دنو ں جب مسلمانو ں کی نمائندہ جما عت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ہوا تو اس کے ساتھ شامل ہو گئے ١٩٠١ میں جب مالی حالا ت مستحکم ہو ئے تو اپنے والد محترم اور بہن بھائیو ں کو بھی بمبئی اپنے ساتھ بلالیا اور ان کی دکھ بال کا حق ادا کیا آپ کی سب سے چھوٹی بہن فاطمہ جنا ح پڑھنے لکھنے کے بعد آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرتی رہیں انہی خدما ت کے باعث پاکستان بننے کے بعد فاطمہ جناح کو ما در ملت کا خطا ب دیا گیا ۔ اپریل ١٩١٨ کو آپ کی دوبارہ شادی رتن بائی سے ہو ئی جنہو ں نے اسلام قبول کرلیا تھا جن میں سے ایک بیٹی ڈینا چودہ اگست ١٩١٩ میں لندن میں پیدا ہوئی قائد اعظم محمد علی جنا ح نے مسلمانو ں اور ہندوئوں کو قریب لا نے میں انتھک کوشش کی آپ کی کاوشوں کے نتیجہ میں ١٩١٦ میں معا ئدہ لکھنئو طے پایا مسلم لیڈرز کے ساتھ اختلا فات کے باعث آپ کچھ عرصہ لند ن میں بھی رہے
لیکن اپنے قریبی دوستوں اور با الخصوص شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے کہنے پر آپ دوبارہ وطن واپس آگئے ١٩٣٤ میں آپ نے مسلمانو ں کی مضبوط نمائندہ جما عت آل انڈیا مسلم لیگ کی قیا دت سنبھالی ١٩٢٠ کی قرارداد کی روشنی میں مسلمانو ں کے لیے ایک علیحدہ ملک کے حصول کے لیے مصروف عمل ہو گئے اس حوالہ سے آپ نے اپنے چودہ نکا ت بھی پیش کئے اور دوقومی نظریے کی بھی بنیاد رکھی ١٩٤٦ کے انتخابات میں مسلمانوں نے بیشتر نشستوں پر کامیابی حاصل کی لیکن انہیں حکومت میں شامل نہ کیا گیا آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے آپس میں اتفاق نہ ہو نے پر تاج برطانیہ کو پاکستان اور ہندوستان کی آزادی کو تسلیم کرنا پڑا۔آپ کی شبانہ روز محنت اور تگ و دو رنگ لے آئی اور یوں ١٤ اگست ١٩٤٧ کو دنیا کے نقشے پر ایک عظیم ریا ست اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آئی جس کی تعمیر و ترقی ، معاشی استحکام ، آئین اور قانون کی خاطر قائد اعظم محمد علی جنا ح شب ورز محنت کرتے رہے آپ پاکستان کے پہلے گورنرجنرل بنے ڈا کٹر علا مہ محمد اقبال کا آپ با رے کہنا تھا کہ برطانوی ہند میں اس وقت صرف آپ ہی ایسے لیڈر ہیں جن سے رہنمائی حاصل کرنے کا حق پو ری ملت اسلامیہ کو حاصل ہے۔
کلیمنٹ اٹیلی وزیرِ اعظم برطانیہ کا کہنا تھا کہ نسب العین پا کستان پر ان کا عقیدہ کبھی غیر متزلزل نہیں ہوا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے جو انتھک جدوجہد کی وہ ہمییشہ یاد رکھی جائے گی ۔ برٹرینڈرسل برطانوی مفکر کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی پوری تاریخ میں کوئی بڑے سے بڑا شخص ایسا نہیں گزرا جسے مسلمانوں میں ایسی محبوبیت نصیب ہوئی ہو۔ مہاتما گاندھی کا کہنا تھا کہ جناح کا خلوص مسلم ہے۔ وہ ایک اچھے آدمی ہیں۔ وہ میرے پرانے ساتھی ہیں۔ میں انہیں زندہ باد کہتا ہوں۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور مسز وجے لکشمی پنڈت کا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام آزاد ہوتے اورکانگریس کے پاس صرف ایک لیڈر محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا۔ ماسٹر تارا سنگھ سکھ رہنما کا کہنا تھا کہ قائدِ اعظم نے مسلمانوں کو ہندوئوں کی غلامی سے نجات دلائی۔ اگر یہ شخص سکھوں میں پیدا ہوتا تو اس کی پوجا کی جاتی۔
سر ونسٹن چرچل برطانوی وزیرِ اعظم کا آپ کے حوالہ سے کہنا تھا کہ مسٹر جناح اپنے ارادوں اور اپنی رائے میں بے حد سخت ہیں۔ ان کے رویے میں کوئی لوچ نہیں پایا جاتا۔ وہ مسلم قوم کے مخلص رہنما ہی نہیں سچے وکیل بھی ہیں۔ مسز سروجنی نائیڈو بلبلِ ہند اور سابق گورنر یو پی کے تاثرات قائدِ اعظم کےمتعلق۔ ایک قوم پرست انسان کی حیثیت سے قائدِ اعظم کی شخصیت قابلِ رشک ہے۔ انہوں نے ذاتی اغراض کے پیشِ نظر کسی شخص کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اپنی بے لوث خدمت کے عوض ہندوستان کے مسلمانوں کے لیڈر ہیں۔ ان کا ہر علامہ شبیر احمد عثمانی کا کہنا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن اور ممتاز عالمِ دین جنہوں نے قائدِ اعظم کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ قائدِ اعظم کے متعلق فرماتے ہیں۔” شہنشاہ اورنگزیب کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا جس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کو کامرانیوں میں بدل دیا ہو”۔ارادہ ہر مسلمان کے لیے حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا ہر حکم مسلمانوں کا آخری فیصلہ ہے جس کی انتہائی خلوص کے ساتھ لفظ بہ لفظ تعمیل کی جاتی ہے۔
”جناح آف پا کستان”کے مصنف پروفیسر اسٹینلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکہ اپنے کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔”بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے ۔ ایسے عظیم محسن رہبر و رہنما کی پو ری قوم ممنون و احسان مند رہے ساری زندگی تو بھی حق ادا نہیں ہوسکتا ہے اپنے پرائے سبھی تو ان کے بے مثال کردار اوصاف اور افکا ر کے معترف رہے تا حیا ت آج نام نہا د پاکستانی ان کی ذات پر بھی کیچڑ اچھا لنے سے باز نہیں آتے ہیں کوئی انہیں سنی اور شعیہ کی بحث میں گھسیٹتا ہے تو کوئی یہ کہہ کر اپنی نا اہلی اور کرپشن کو چھپاتا ہے کہ محمد علی جنا ح بھی گریجویٹ نہیں تھے عظیم قا ئد کو انگریزوں کا ایجنٹ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ہے جو لو گ اپنے محسنو ں اور آبا ئو اجداد کی قدر نہیں کرتے اور انہیں اچھے نامو ں اور کامو ں سے نہیں پہنچانتیں تو ان کا اپنا وجود بھی مٹ جاتا ہے
غرق ہوجاتی ہے وہ جاہلیت اور ہیبت کے گرداب میں ان کی اکلوتی صاحبزادی ڈینا جناح نے اپنی زیادہ تر زندگی پاکستان کے با ہر ہی گزار دی اور کسی حاکم یا سیاستدان کو یہ تو فیق بھی نہ ہوئی کہ انہیں وطن عزیز میں لاکر ان کی عزت و تعظیم کی جا ئے بلکہ ان کی بہن شیریں جنا ح کی نواسی اور قا ئداعظم کی نواسی خو رشید بیگم جو ١٩٩٨ میں منظر عام پر آئیں کے حقیقی صا حبزادے کو پو لیس حراست میں قتل کردیا گیا جو ٢٥ دسمبر کو مزار قائد پر گیا اور ٩ جنوری کو اسکی لا ش ملی بانی پاکستان اپنے خاندان کے ہر ایک فرد کو معتبر جانتے اور اس سے محبت رکھتے تھے اسکے علاوہ قا ئداعظم محمد علی جنا ح کے نواسے اسلم جنا ح بھی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں محسن پاکستان کا خاندان انصاف کا طلبگا ر ہے اور قوم کو انصاف کون دلا ئے گا ؟
اگر اس بدتر دور میں محمد علی جنا ح خود بھی موجود ہو تے تو انہیں بھی یہ مفاد پرست حکمران ماننے سے انکا ر کر دیتے قائد اعظم محمد علی جنا ح اور ہما رے آبا ئو اجداد کے خواب چکنا چور ہو کر رہ گئے آج پاکستان میں کسی با صلاحیت اور محسن کی کوئی قدر نہیں ہے انسانیت اور انسانی حقوق جیسی کوئی چیز دکھائی ہی نہیں دیتی کیا یہی تھا قائد اعظم محمد علی جنا ح کا وطن اور علامہ محمد اقبال خواب شرم آتی ہے موجودہ حالات دیکھ کر خود کو قائد اعظم کا جا نشین کہلوانے والے پو رے اقوام عالم میں بدنامی و بربادی کی تصویر بنے ہو ئے ہیں اور آج پھر اس مخلص با وقار اور با کردار قا ئد کے حقیقی اصولو ں کی پیروی کرنے وا لے ایماندار اور دیانتدار رہنما کی ضرورت ہے جس کا محور و مسکن دولت و امارت اور جائیداد نہ ہو بلکہ تمام تر مفادات کو پس پشت ڈال کر حقیقی معنو ں میں پاکستان کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا بیڑا اٹھا ئے اور اسے خالصتا قائد اعظم محمد علی جنا ح کا پاکستان بنا دے جہا ں خوشحالی ہو جہا ں انسانی حقوق کا تحفظ ہو جہا ں خود کش حملے کرنے والو ں کو براجانا جا ئے جہا ں پر انسانیت کی توقیر اور عزت کی جا ئے جہا ں عورت کو قدر کی نگا ہ سے دیکھا جائے جہاں بچیوں کی تعلیم و تربیت کو گناہ نہ کہا جا ئے جہا ں پر با صلا حیت افراد کو نظر انداز نہ کیا جا ئے جہا ں پر محسنین کی تکریم کی جا ئے جہا ں ظالم کے خلا ف علم حق بلند کیا جا ئے جہا ں کرپشن اور دہشتگردی کا ناسور جنم نہ لے جہا ں پر عدل و انصاف عام ہو جہا ں پر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیاجائے جہا ں پر امن ہو محبت ہو سکون ہو اتحاد و اتفاق اور حقیقی عوامی جمہوری حکومت بھی ہو برطانیہ اور ترقی یا فتہ ممالک کی طرح ۔
خا کسار تحریک کے بانی اور قائدِ اعظم کے انتہائی مخالف علامہ مشرقی نے قائد کی موت کا سن کر فرمایا ”اس کا عزم پائندہ و محکم تھا۔ وہ ایک جری اور بے باک سپاہی تھا، جو مخالفوں سے ٹکرانے میں کوئی باک محسوس نہ کرتا تھا”۔
حضرت واصف علی واصف فرما تے ہیں زندگی خود ایک ایسی بیما ری ہے جس کا انجام مو ت ہے اور مسلمان کا ایمان یہ ہے کہ نہ وقت سے پہلے مو ت آنی ہے اور نہ وقت کے بعد زندگی ٹھہرنی ہے
قا ئد اعظم محمد علی جناح آخری ایام میں ٹی بی کے عارضہ میں مبتلا رہے اور ڈاکٹروں کی نصیحتوں کے باوجود انتھک محنت کرتے رہے کیوں کے ان کا عزم اور ارادے بہت ہی بلند تھے اپنی جان قربان کردی لیکن رہتی دنیا تک ان کا نام قائم و دائم رہے گا اور وہ آج بھی ہما رے سا تھ ساتھ کئی چا ہنے والو ں کے دلو ں میں زندہ و جا وید ہیں اور قیامت کی صبح ہو نے تک انکا نام ہمیشہ روشن اور جگمگاتا رہے گا اب سوچنا یہ ہے کہ زندگی ہم نے اپنے قائد کی طرح لازوال گزارنی ہے کہ موجودہ حکمرانو ں کے نقشے قدم پر چلتے ہو ئے خود کو تباہ و برباد کرنا ہے جن کی نہ تو دنیا اچھی ہے اور نہ ہی عاقبت