پیپلزپارٹی، جو محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے تیزی کے ساتھ روبہ زوال چلی آرہی تھی، دیہی سندھ کو چھوڑ کر پورے ملک میں اس کا ووٹ بینک تاریخ کے بدترین کمی کا شکار ہوگیا تھا، اب اسے بلاول بھٹو کی شکل میں نیا آکسیجن سلنڈر لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس سلسلے میں دو سوالات قابل غور ہیں۔ اول، آیا یہ نیا آکسیجن سلنڈر ملکی سطح پر تیزی سے غیر مقبول ہوتی قومی جماعت میں زندگی کی نئی روح پھونک سکے گا یا نہیں؟ دوئم، کیا دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی اپنی سابقہ مقبولیت کے گراف میں اضافہ کرسکے گی یا نہیں؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنے اور پیپلز پارٹی کے عروج و زوال کے سفر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے قیام، طرز سیاست اور حکمت عملیوں کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے۔
پیپلزپارٹی 30 نومبر 1967 کو لاہور میں وجود میں آئی۔ ابتداً یہ بائیں جانب واضح جھکاؤ رکھنے والی لبرل جمہوری جماعت تصور کی جاتی تھی، جس کے مخاطب اربن مڈل کلاس کے علاوہ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے شہری تھے۔ اس کے بانیان کی اکثریت کا تعلق بھی اربن مڈل کلاس سے تھا۔ اس کے نعرے اسلام ہمارا مذہب، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، نے مقبولیت کے بام عروج تک پہنچایا تھا۔ یہی سبب تھا کہ اس کے منشور اور طرز سیاست نے ملک کے مغربی حصے کی ابھرتی ہوتی مڈل اور ورکنگ کلاس کو 1970 کے عام انتخابات میں اپنی جانب متوجہ کیا، خاص طور پر سندھ اور پنجاب میں اسے فقیدالمثال پذیرائی ملی، جب کہ سابقہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ بہت بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری۔
اگر ملکی سیاست کے رجحانات کا صوبوں کے حوالے سے جائزہ لیا جائے، تو عوامی لیگ مشرقی بنگال، پیپلز پارٹی سندھ اور پنجاب، جب کہ جمعیت علمائے اسلام (درخواستی) اور نیشنل عوامی پارٹی کے پی کے اور بلوچستان کی نمایندہ جماعتوں کے طور پر سامنے آئیں۔ عددی اکثریت کے لحاظ سے عوامی لیگ ملک کی سب سے بڑی، پیپلز پارٹی دوسری، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، مسلم لیگ (قیوم) اور نیشنل عوامی پارٹی انیس بیس کے فرق سے تیسری، چوتھی اور پانچویں بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئیں۔
یہاں چند نکات کا سمجھا جانا ضروری ہے۔ اگر ملک گیر بنیادوں پر نمائندگی کے تصور کو اپنایا جاتا، تو عوامی لیگ کوملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر قبول کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر صوبوں کی نمائندگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو جمعیت علمائے اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی کی ملک کے دو صوبوں میں نمایندہ حیثیت کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن پیپلز پارٹی نے الیکشن کے فوراً بعد خود کو پورے مغربی پاکستان کی نمایندہ جماعت کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا۔
یہ ایک غلط تاثر تھا، مگر چونکہ پشت پر اس وقت کی اسٹبلشمنٹ تھی، جو عوامی لیگ کے سیاسی کردار کو قبول کرنے اور اسے اقتدار منتقل کرنے کی مخالف تھی، اس لیے دونوں حصوں کی علیحدہ نمائندگی کا شوشہ چھوڑا گیا۔ الیکشن کے بعد نشترپارک کراچی میں بھٹو مرحوم کا خطاب اور پھر 28 فروری 1971 کو ڈھاکا جانے والے اراکین دستور ساز اسمبلی کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان خط فاصل کھینچ دی، جو ختم نہیں کی جاسکی۔
لیکن پیپلز پارٹی کے زوال کی بنیاد عوامی سطح پر اس کا دوہرا معیار بنا۔ 1970 کے اوائل میں ہونے والی ہالا ہاری کانفرنس کے موقع پر ایک طرف بانی چیئرمین نے معراج محمد خان مرحوم جیسے شعلہ بیان مقرر کو شہہ دی کہ وہ جاگیرداروں کے خلاف کھل کر اظہار خیال کریں، جب کہ دوسری طرف بقول عبدالحمید جتوئی مرحوم، انھوں نے سندھ کے جاگیرداروں کو یہ یقین دلایا کہ ان کا تعلق بھی فیوڈل کلاس سے ہے، اس لیے وہ ان کے خلاف نہیں جاسکتے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے 1970 کے عام انتخابات میں جن فیوڈل سیاستدانوں کو بدترین شکست سے دوچار کیا تھا، انھیں اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف اپنی صفوں میں شامل کیا، بلکہ 1977 کے عام انتخابات میں مخلص کارکنوں کے بجائے سندھ کی سطح پر انھی فیوڈل سیاستدانوں کو انتخابی ٹکٹ بھی جاری کیے۔
اس میں شک نہیں کہ بھٹو مرحوم نے اقتدار میں آنے کے بعد بعض انتہائی اہم اقدامات کیے، جن میں آئین سازی، شملہ معاہدہ، مسلم دنیا کو یکجا کرنے کی خاطر اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد، ملک کو جوہری قوت بنانے کی سوچ کا آغاز اور بنگلہ دیش کا بحیثیت ایک مملکت تسلیم کیا جانا، شامل ہیں۔ لیکن دوسری طرف انھوں نے پیپلز پارٹی کی بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی آزاد خیال سیاست کی سمت بھی تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کے دور میں کی گئی بعض قانون سازیاں، فیصلے اور اقدامات ایسے تھے، جو آج ایک بڑی عفریت کی شکل میں ملک کے وجود کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔ اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے، تو حالیہ مذہبی شدت پسندی کے رجحانات کو تقویت دینے کی ابتدا بھی انھی کے دور سے ہوئی۔
جنرل ضیاالحق کے دور آمریت میں کارکنوں نے فقیدالمثال قربانیاں دیں۔ لیکن اس دوران پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر پینترا بدل کر اپنے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ اور عوام کے محروم طبقات کی نمائندگی کے تاثر کو بری طرح مجروح کیا۔ 1986 میں بی بی شہید کا یہ کہنا کہ ان کی استقبالیہ ریلی کے دوران امریکی جھنڈا جلانے والوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے نہیں اور پھر 1988 میں قربانی دینے والے کارکنوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پارٹی ٹکٹ جاگیرداروں اور مراعات یافتہ طبقہ کے نمائندوں کو دینے سے پارٹی کا تشخص بری طرح مجروح ہوا۔
اس دوران نواز شریف پنجاب کی ابھرتی ہوتی اربن مڈل کلاس کے نمائندے کے طور پر سامنے آئے۔ نتیجتاً پیپلز پارٹی کی رومانیت پرستی پر مبنی سیاست کا پنجاب میں سورج غروب ہونا شروع ہوگیا۔ اسی دوران اربن سندھ میں ایم کیوایم کی شکل میں ایک نئی سیاسی قوت سامنے آئی، تو سندھ کی سیاست میں دیہی اور شہری کی تقسیم مزید گہری ہوگئی۔
پیپلز پارٹی نے دیہی اور شہری کی تقسیم کو کم کرنے کے بجائے ایسے اقدامات کیے جس سے یہ خلیج مزید گہری ہوتی چلی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ دیہی سندھ کی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی نے دانستہ ایسے اقدامات کیے کہ یہ خلیج کم نہ ہونے پائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی جو کبھی چاروں صوبوں کی زنجیر کہلاتی تھی، دیہی سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
پیپلزپارٹی کی خوش نصیبی یا سندھ کی بدنصیبی کہ یہاں اسے چیلنج کرنے والی کوئی طاقتور سیاسی قوت موجود نہیں ہے۔ قوم پرستوں کی سیاست بہت پہلے اپنے سٹیریئو قسم کے طرز عمل کی وجہ سے گہنا چکی تھی، جب کہ مسلم لیگ (ن) دانستہ طور پر سندھ میں تنظیم سازی پر توجہ نہیں دیتی۔ تحریک انصاف میں صلاحیت نہیں کہ وہ سندھ کی سیاست کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے تنظیم سازی کرے۔ سندھ میں جاری پُرانا نظام کے ٹوٹنے کے امکانات فی الحال معدوم ہیں۔ لیکن دو پہلو بہت اہم ہیں۔
ایک یہ کہ ملکی سطح پر پیپلز پارٹی کے گہنائے جانے کے باوجود سندھ کا فیوڈل اس کی جانب متوجہ ہورہا ہے اور جو لوگ دوسری جماعتوں میں چلے گئے تھے وہ واپس آرہے ہیں۔ بعض ایسے عناصر بھی شامل ہورہے ہیں، جن کے بارے میں پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دیہی سندھ پر فیوڈل گرفت مزید مضبوط ہورہی ہے۔ دوئم شکارپور کے حالیہ ضمنی انتخاب میں جمعیت علمائے اسلام کے نمائندے (ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے فرزند) کا امتیاز شیخ کے مقابلے معمولی مارجن سے شکست کھانا، سندھ کی سیاست میں بعض نئے رجحانات کی نشاندہی کررہا ہے۔
البتہ پنجاب اور کے پی کے میں پیپلز پارٹی کا دوبارہ نمودار ہونا بظاہر مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آرہا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک کے پس پردہ طاقتور حلقے تحریک انصاف کی کارکردگی سے مایوس ہوکر بادل نخواستہ پیپلز پارٹی کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے آصف زرداری کے دھمکی آمیز بیانات کو نظر انداز کرتے ہوئے انھیں ملکی سیاست میں فعالیت کا سبز سگنل دیدیا ہے۔ مگر ایک ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ آیا پیپلز پارٹی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حیثیت کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آسکے گی؟ ہمارے خیال میں نہیں۔ قارئین کی بہرحال جو بھی آرا ہوں، قابل احترام ہیں۔