counter easy hit

پیپلز پارٹی بدعنوانوں کا ٹولہ ہے

Zulfikar Ali Bhutto

Zulfikar Ali Bhutto

تحریر: سید انور محمود
ذوالفقار علی بھٹو پر ان کے مخالفین بہت سے الزامات لگاتے ہیں مگران کے ایک کٹر نظریاتی مخالف جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر پروفیسر غفور احمد مرحوم سے کئی برس پہلے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا بھٹو صاحب مالی خوردبرد میں ملوث تھے تو پروفیسر غفور نے جواب دیا تھا کہ بھٹو پر ہر الزام لگایا جاسکتا ہے لیکن بھٹو پر مالی بدعنوانی اور لوٹ مار کا الزام کوئی نہیں لگاسکا۔ آصف زرداری کی پاکستانی سیاست میں آمد صرف اس وجہ سے ہوئی کہ اُن کی شادی بینظیربھٹو سے ہوئی، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ایک گمنام انسان ہوتےاور شاید اپنے قریبی حلقے میں ہی پہچانے جاتے۔ بینظیربھٹو 1988ء میں پہلی مرتبہ وزیراعظم بنیں اور تھوڑے عرصےبعد ہی آصف زرداری “مسٹر ٹین پرسینٹ” کے طور پر سامنے آئے۔ بینظیر بھٹو کی دونوں حکومتیں کرپشن کے الزامات کے تحت ختم کی گئی تھیں۔ صدر فاروق لغاری جنہیں خود بینظیر بھٹو ہی لےکر آئی تھیں انہیں شاہی جوڑے کی کرپشن کی وجہ سے بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کرنی پڑی۔ شاہی جوڑے کی کرپشن کا یہ حال تھا کہ بینظیر بھٹو نے وزیراعظم ہوتے ہوے یہ بیان دیا تھا کہ َکک بیک اور کمیشن کو قانونی حیثیت دے دینی چاہیئے۔

بینظیر بھٹو کی موت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی 2008ء سے 2013ء کی مرکزی حکومتوں میں آصف زرداری، اُن کے دو وزرائےاعظم اور وفاقی اور صوبائی وزرا نے مل کر کرپشن اور بدانتظامی کے حوالے سے ماضی کےتمام ریکارڈ توڑڈالے ۔ اربوں روپے کی کرپشن کر کے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اورملکی معیشت کو مفلوج بناڈالا۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے بارے میں ایک بات مشہور ہے کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں۔ انہوں نے تقریباً دس سال قید میں کاٹے اور 2004ء میں سارے مقدمات میں بری ہونے کے بعد اُنہیں رہا کردیا گیا- جیل میں انہوں نے قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی کام کیے، جیل کے زمانے میں جن لوگوں سے ان کی دوستی ہوئی وہ آج بھی اُن کے ساتھ ہیں۔

بدنام زمانہ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقارمرزا تو زرداری کے بچپن کے دوست ہیں لیکن آج کل ذوالفقارمرزا زرداری کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ذوالفقارمرزا نےکراچی میں پیپلز امن کمیٹی بناکر کراچی خاص کر لیاری کو تباہ کردیا۔ تجزیہ نگارروف کلاسرا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ “ایک دن ذوالفقار مرزا کے منہ سے سنا کہ اگر سابق وزیرپٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کر کے رگڑا لگایا جائے تو وہ اربوں روپے اگل دے گا”۔ کچھ دن بعد مرزا نے ایک اور انکشاف کیا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کا نام ایک سکینڈل میں تھا جس کا ریفرنس نیب کے پاس تھا، تاہم الزام لگا کہ موجودہ چیئرمین نے خاموشی سے اُن کا نام اس سکینڈل اور ریفرنس سے نکال دیا تھا۔ پتہ چلا کہ ایف ٹین کے فلیٹس میں دونوں کے ایک مشترکہ دوست کے توسط سے ہونےوالی ملاقاتیں رنگ لائی تھیں۔

PPP

PPP

پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت تو 2013ء میں ختم ہوگئی لیکن سندھ میں اس کی صوبائی حکومت ابھی تک برقرار ہے اور اُس کے ساتھ ہی صوبے میں بدعنوانی بھی عروج پر ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین جو سابق صدر آصف زرداری کے 1990ء سے بہت قریبی دوست ہیں، وہ تعلیم اور پیشے کے لحاظ سے ایک طبیب ہیں لیکن زرداری کی دوستی کی وجہ سےاُنہیں 2008ء میں چیئرمین نیشنل ری کنسٹریشن بیورو تعینات کیا گیا۔ 2009ء میں وہ پیپلز پارٹی کی طرف سے سینیٹر منتخب ہوئے لیکن سپریم کورٹ کے دُہری شہریت کے بارے میں فیصلے کے بعد انہیں 2012ء میں مستعفی ہونا پڑا۔مستعفی ہونے سے قبل وہ پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیر بھی رہے۔ اس عرصے میں وہ سی این جی اسٹیشنوں کے غیر قانونی پرمٹ جاری کرنے کے علاوہ دیگر بدعنوانیوں میں شامل رہے۔ ان کے مخالفین اُن کے کردار پرتنقید کرتے رہے ہیں۔وہ آج کل سندھ ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ کے عہدے پر تعینات ہیں۔

چھبیس مئی کو ڈاکٹر عاصم حسین اور ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر سوئی سدرن گیس کمپنی شعیب وارثی کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین پر ایل این جی اور ایل پی جی کے معاملات میں کرپشن اور سی این جی سٹیشنز کے سینکڑوں غیر قانونی لائسنس جاری کرنے کے الزامات ہیں۔ جب کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر شعیب وارثی پر ڈاکٹر عاصم حسین کے لیے غیر قانونی کام کرنے اور گیس کنکشنوں کے اجراء میں کروڑوں روپے کمانے کا الزام ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ گیس کے ہر کنکشن کے لیے چھ ہزار روپے سرکاری فیس کی بجائے ایجنٹوں کے ذریعے پندرہ ہزار روپے وصول کیے جاتے تھےجس کا آدھا حصہ شعیب وارثی کو پہنچایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر عاصم پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی دوسری اہم شخصیت ہیں جنہیں حالیہ ماہ حراست میں لیا گیا ہے۔اس سے قبل قومی احتساب بیورو نے آٹھ اگست کو لاہور میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق اولمپیئن قاسم ضیاء کو کروڑوں روپے کی بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

کراچی میں انسداد بدعنوانی کی وفاقی عدالت کے جج نے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ایک ارب روپے کی مبینہ کرپشن کے مقدمے میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر مخدوم امین فہیم سمیت دس افراد کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے ہیں۔ تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ان ملزمان کی بدعنوانی کی وجہ سے قومی خزانے کو ایک ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ حالیہ مقدمات سے پہلے بھی یوسف رضا گیلانی اور مخدوم امین فہیم پر ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں بدعنوانی کے 12 مقدمات دائر ہیں جن میں وہ ضمانت حاصل کرچکے ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ایک بے انتہا بدعنوان وزیراعظم رہے ہیں۔

ousuf Raza Gilani

ousuf Raza Gilani

یوسف رضا گیلانی جب جیل میں تھے تو انہوں نے گھڑی فروخت کرکے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کی تھیں مگر پیپلز پارٹی کے دور میں وہ اور اُن کے بچے کروڑوں پاونڈزکی شاپنگ دنیا کے مہنگے ترین سٹور ہارُڈز(Harrods) سے کرتے تھے اور ایک ایک رات میں مبینہ طور پر لاکھوں روپے کسینو میں خرچ کر دیتے تھے۔ امین فہیم جو ٹیکس تو چھوڑیں بجلی کا بل بھی نہیں دیتے جب وہ وزیر تھے تو اُنہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ اُن کے بینک اکاونٹس میں 10 کروڑ روپے کیسے آگئے۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر رہے کہ اُن کی بیٹی مقابلے کا امتحان دیئے بغیر کیسے برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے کے سکینڈ سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہو گئیں۔ پیپلزپارٹی کے ایک اورسابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے 18 ویں گریڈ میں انکم ٹیکس محکمے میں تعینات داماد کو پہلے ای او بی میں 20ویں گریڈ پر ترقی دی اور پھر 21 ویں گریڈ میں اپنے پاس وزیراعظم سیکرٹیریٹ میں جائنٹ سیکرٹری بنا دیا۔

گیارہ جون کو اپیکس کمیٹی میں ڈی جی رینجرز نے ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق سالانہ 230 ارب روپے دہشت گردی میں استعمال ہونے کا انکشاف ہوا۔ جس کے بعد پیپلز پارٹی میں کھلبلی مچ گئی۔ اس رپورٹ میں آصف زرداری اور اُن کی پیپلز پارٹی کا کردار واضح نہیں کیا گیا تھا لیکن چور کی ڈاڑھی میں تنکا کے مصداق وہ فوج پر برس پڑے اوراپنی استطاعت سے بڑھ کر دعوے کرڈالے۔ آصف زرداری نے کہا کہ سیاست دانوں کے راستے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔

اُنہوں نے کہا کہ جب پیپلز پارٹی نے ہڑتال کی تو خیبر سے لے کر کراچی تک جام ہو جائے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اب سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔پیپلز پارٹی کے مقابلے میں قائم ہونے والے لاڑکانہ عوامی اتحاد کی جانب سے پیر 24 اگست کو لاڑکانہ میں بہت بڑی ریلی اور جلسہ منعقد کیا گیا۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما ممتاز بھٹو نے کہا کہ زرداری پیپلز پارٹی کی خراب کارکردگی کی وجہ سے آج پورا سندھ جل رہا ہے۔ عوامی اتحاد کے کنوینر اور سابق رکن سندھ اسمبلی حاجی منور علی عباسی نے کہا کہ لاڑکانہ کے عوام نے کرپشن اور بدعنوانیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو مسترد کر دیا ہے اور آئندہ انتخابات میں عوامی اتحاد زرداری پارٹی کو بری طرح شکست سے دوچار کر ے گا۔ عوام نے پرجوش انداز میں گو زرداری گو کے نعرے لگائے۔

Dr Asim

Dr Asim

سابق مشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری اور عدالت سے ریمانڈ لئے جانے کے بعد آصف زرداری نے پارٹی قائدین سے ٹیلیفون رابطے کیے ہیں اور پارٹی رہنماؤں کی گرفتاریوں پربھرپوراحتجاج اورٹھوس حکمت عملی اپنانےکی ہدایات دی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے،کیا کرپشن صرف کراچی میں ہورہی ہے،ڈاکٹر عاصم کا قصور پیپلزپارٹی سے تعلق ہے،جس کی اُنہیں سزا دی جا رہی ہے،جیلیں اور ہتھکڑیاں ہمارا راستہ نہیں روک سکتیں۔قائد حزب اختلاف خورشید شاہ جو پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر بھی رہے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ اگر آصف علی زرداری پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو یہ جنگ کی ابتداء کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ خورشید شاہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹرعاصم کی گرفتاری قابل مذمت ہے،اداروں کے اندراداروں کی مداخلت کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔ خورشید شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اولمپیئن ہیروقاسم ضیاء کو جھوٹے مقدمے میں پکڑا اورہتھکڑی لگاکرپیش کیا گیا،جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے ہم کسی کو مجرم نہیں کہہ سکتے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ڈی جی رینجرز اُن کے ماتحت ہیں، انہیں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کا بتاناچاہیئے تھا، اس معاملے پر کور کمانڈر اور ڈی جی رینجرز کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس ثبوت ہیں۔

بدعنوان عناصرکا تعلق کسی بھی جماعت سے ہووہ ملزم ہوتے ہیں، اُن کی تفریق نہ تو علاقے کی بنیاد پر اور نہ ہی جماعت کی بنیاد پر کرنی چاہیئے۔ کراچی آپریشن میں گرفتارہونے والے دہشت گرد، ٹارگیٹ کلریا بھتہ خوروں کے بارے میں یہ کہنا کہ فلاں فلاں جماعت سے ہے غلط ہے، ڈاکٹر عاصم حسین اور شعیب وارثی دونوں کو جرم کی بنیاد پر گرفتار کیا گیاہے اور دونوں کا تعلق کراچی سے ہے۔ یہ معاملہ کسی جماعت یا کسی رہنما کے خلاف کارروائی کا نہیں بلکہ ان بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی کا ہے جو دہشت گردوں کی مالی معاونت میں ملوث رہے ہیں۔

شعیب وارثی کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، دوسری طرف پیپلز پارٹی کے رہنما قاسم ضیاء کو کراچی سے نہیں لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ویسے یہ بات سب مانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی بدعنوانوں کا ٹولہ ہے اور اس کے گرو آصف علی زرداری ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں اور جمہوری حکومتیں اپنے اندرموجود بدعنوان عناصر کے خلاف آئینی اداروں کے ذریعے کارروائی کو تیار نہیں توپھرانہیں عوام کو جواب دینا ہوگا کہ آخراس کرپشن کے خلاف اقدامات کون کرے گا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کا موقف درست ہے کہ سیاسی رہنماوں اور حکومتی عہدیداروں کی گرفتاری آئینی طور پر مجاز اداروں کو کرنی چاہئیں لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ اگر ادارے ایسا نہ کر سکیں تو اس صورت میں کیا کیا جانا چاہیئے؟

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر: سید انور محمود