counter easy hit

افغانستان میں پرایا کھیل

وزیر داخلہ چودھری نثار ان دنوں مسلسل خبروں میں ہیں۔ کوئٹہ کمیشن میں ان کا ذکر آیا اور منفی انداز میں آیا تو انہوں نے وزیراعظم کو استعفی دینے کی پیش کش کی مگر وزیراعظم نے اسے قبول نہ کیا۔ اس کے بعد چودھری صاحب نے اپنا موقف پیش کیا اور سارے الزامات کو دھو ڈالا۔
ادھر پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو بھی ان کا ذکر کئے بغیر نہیں رہتے۔ سیاست میں کسی کا ادب لحاظ ملحوظ رکھنا گناہ خیال کیا جاتا ہے، اسلئے بلاول کے منہ میں جو آتا ہے، بول دیتے ہیں اصل میں خرابی ان کے استادوں میں ہے اور ان کے سب سے بڑے استاد تو ان کے نانا حضور بھٹو تھے جنہوںنے اپنے ہر مخالف کی پگڑی اچھالی اور اس عادت کی وجہ سے وہ اس قدر تنہا رہ گئے کہ ایک وقت تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ ان کی موت پر ہمالہ بھی روئے گا مگر جب انہیں پھانسی دی گئی تو ان کے کارکن بھی غائب ہو گئے۔
بلاول کی جگہ سنبھالنے کے لئے ان کے والد واپس آ رہے ہیں دیکھئے، وہ اپنی زبان کا استعمال کیسے کرتے ہیں، انہیں اسی زبان کی وجہ سے باہر جا نا پڑا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ تم نے تین سال رہنا ہے، ہم نے ہمیشہ رہنا ہے۔ مگر ہوا یہ کہ ہمیشہ میں سے ڈیڑھ سال تو منہا ہو گیا۔
میں اصولی طور پر سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کی جنگ اگرچہ فوج، رینجرز، پولیس وغیرہ لڑتی ہیں لیکن چونکہ یہ داخلی سلامتی کا محاذ ہے، اسلئے حکومتی سطح پر اس کی کمان وزیر داخلہ کے ہاتھ میںہوتی ہے، یہ بات میںنے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کے بارے میں بھی کہی اور اب بھی سمجھتا ہوں کی چودھری نثار ہی ایک منتخب وزیر داخلہ کے طور پر اس جنگ کے سول کمانڈر ہیں، کسی کو یہ بات بری لگے تو لگتی رہے، مگر جمہوری نظام میں تو یہ سچی بات ہے۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ کوئی وزیر داخلہ ا پنی اتھارٹی کو استعمال کرے یا نہ کر ے، نہیںکرے گا تو آرمی چیف بہر حال حاوی نظر آئے گا، اب اگر وزیر داخلہ لنڈی کوتل جا پہنچے ہیں اور انہوں نے قبائل کو دہشت گردی کی جنگ میں تعاون پر خراج تحسین پیش کیا ہے اور آزادی کشمیر کی جنگ میں شرکت کو بھی سراہا ہے تو یہ تاریخی حقائق ہیں جو ان کی زبان پر آ گئے ہیں مگر اصل بات انہوں نے افغانستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہی ہے کہ یہ ملک تو ہمارا دوست ہونا چاہئے تھا مگر غیروں کے ہاتھ میںکھلونا بنا ہوا ہے اور ہمارے خلاف پراکسی وار کا اڈہ ثابت ہو رہا ہے۔ افغانستان کویہ آئینہ دکھانے کی اسلئے بھی ضرورت تھی کہ پچھلے دنوںا س ملک کے صدر اشرف غنی نے امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میںہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی عزت پر ہاتھ ڈالا تھا اور پاکستان کو بے نقط سنائی تھیں، افغان صدر کو بھارت کی انگیخت ہے، اسلئے بڑھ چڑھ کر باتیں بنا رہا ہے۔ وزیر داخلہ نے اس مغربی ہمسائے سے کہا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے لئے پاکستان کو مورد الزام نہ ٹھہرائے بلکہ اس ملک کو،کوسنے دے جو اس کے سر پہ بھوت بن کے سوار ہے اور جس کی انگلیوں پہ وہ ناچ رہا ہے۔ چودھری نثار نے افغانستان کو یاد دلایا کہ ہم نے تو دہشت گردی کے تمام اڈے فنا فی النار کر دیئے، اب کچھ بھگوڑے افغانستان میں جا چھپے ہیں اور گیدڑوں کی طرح کہیں سے رینگتے ہوئے بزدلانہ حملے کرتے ہیں لیکن ان کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔ افغانستان بھی اپنی ذمے داری محسوس کرے اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہ کرنے دے۔
یہ عجب بدقسمتی ہے کہ افغانستان ایک مسلمان ہمسایہ ہے مگر قیام پاکستان سے لے کر ہمیں ادھر سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا کبھی نہیں آیا، پہلا افغان ایلچی قائداعظم کے حضور اسناد سفارت پیش کرنے آیا تو اس کی زبان پر بھی شکوے ہی شکوے تھے۔
پاکستان نے اس ملک کے لئے کیا کچھ نہیں کیا، سب کچھ، حتی کہ اپنی سلامتی اورآزادی بھی داﺅ پر لگا دی، سوویت روس نے افغانستان پر قبضہ جمایا تو یہ پاکستان ہی تھاجس نے روس کے خلاف جہاد منظم کیا، یہ تو کامیاب رہا، افغانستان کو روس کے چنگل سے تونجات مل گئی مگر پاکستان کو ساٹھ ستر لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھانا پڑا، پاکستان کو ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کا تحفہ بھی ملا اور افغان جنگجو اپنی آویزش ہمارے ہاں بھی لے آئے جس کی وجہ سے ایک طویل دور تک پاکستان دھماکوں سے لرزتا رہا اور ہماری قیمتی اور بے گناہ جانیں ضائع ہوتی رہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر یلغار کی تو پاکستان ایک بار پھر اپنے افغان بھائیوںکے ساتھ کھڑا ہو گیا اور صلے میں اسے دہشت گردی کی خوفناک جنگ سے سابقہ پیش آیا جس نے ستر ہزار پاکستانیوں کو موت کی نیند سلا دیا، ہماری معیشت الگ برباد ہوئی۔ اس کے باوجود افغانستان کے گلے شکوے ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتے۔
چودھری نثار نے اس ہمسائے کی اچھی گرفت کی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ افغان سرحد کو کھلا نہیں چھوڑا جائے گا اور وقت کے ساتھ اس پر داخلی خارجی مقامات کی تعداد محدود کر دی جائے گی۔ تاکہ افغانستان کی سرزمین کو استعما ل کرنے والے شرپسندوں کو چیک کیا جا سکے، بلاشبہ افغان ہمارے بھائی ہیں، ہمسائے کے سو حقوق ہوتے ہیں مگر ہمسایہ ملک کو یہ اجازت نہیں دی جاس کتی کہ وہ ہماری تباہی اور بربادی کی سازشوں کا حصہ بنے۔
چودھری صاحب کو ان عناصر پر بھی نظرعنایت کرنی چاہئے جو پاکستان کے اندر اور افغانستان بنانے کی تجویزیں دے رہے ہیں، ایک افغانستان تو ہم سے سبنھالا نہیں جاتا اوپر سے ایک اور افغانستان نے ہمارے اندر سے جنم لے لیا تو ہمیںاندر اور باہر سے چین نصیب نہیں ہو گا اور ہر طرف سے کچوکے لگیں گے۔
چودھری نثار ایک فائٹر شخصیت ہیں، انہوں نے اب جو محاذ چنا ہے یہ ان کے شایان شان ہے، سیاسی معاملات کے لئے حکومت کے پاس ترجمانوں کی فوج ظفر موج ہے، وزیرداخلہ کو ملکی سیکورٹی، امن و امان، نیشنل ایکشن پلان اور خفیہ ایجنسیوں کے مابین ہم آہنگی اور اشتراک عمل پر بھرپور توجہ دینی چاہئے، یہ وقت کی ضرورت ہے اور چودھری نثار اس ضرورت کو احسن طریقے سے پورا کرنے کے اہل بھی ہیں۔
چودھری صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کن صلاحیتوں کا حامل ملک ہے اور اس نے پچھلے بارہ چودہ برسوں میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے، ملک کی سرزمین ان پر تنگ کر دی گئی ہے، اب یہ عناصر افغانستان میں گھس گئے ہیں جہاں انہیں را کی سرپرستی بھی حاصل ہے، یہ چیلنج بہت بڑا ہے اور قوم کے اتحاد کے ساتھ ہم انشاءاللہ اس چیلنج سے بھی آبرومندانہ طور پر عہدہ برآ ہوں گے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website