13 جون 2014 پاکستان بالخصوص پنجاب کی تاریخ میں ایک سیاہ دن ہے۔ اس دن سانحہ ماڈل ٹاؤن وقوع پذیر ہوا تھا جس میں 14 سے زائد لوگ شہید اور 100 سے زائد لوگ زخمی ہوئے تھے۔ ان شہیدوں اور زخمیوں میں پولیس اہلکار، عورتیں اور بچے شامل تھے۔ یہ بہت ہی دردناک قسم کا واقعہ تھا۔ ناجائز تجاوزات کو ہٹانے کے نام پر پولیس نے منہاج القرآن سیکریٹیریٹ پر ایک گرینڈ آپریشن کیا اور اس آپریشن کا نتیجہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
اس آپریشن کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بہت سارے دھرنے دیے، انقلاب مارچ کے نام پر لاہور سے اسلام آباد مارچ کیا، کفن تیار کروائے گئے، قبریں کھودی گئیں مگر نتیجہ صفر رہا۔ علامہ صاحب ہر چھ ماہ بعد آتے، حکومت کو ایک دھمکی دیتے اور واپس کینیڈا کی فلائٹ پکڑ لیتے۔
پنجاب حکومت بالخصوص وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی طرف سے اس واقعے کی پہلے تو مذمت کی گئی اور پھر اس سے مکمل لا علمی کا اظہار کیا گیا۔ شہباز شریف نے اس کے بعد جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں واقعے کی مکمل تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی اعلان کردیا کہ اگر سانحہ ماڈل ٹائون میں ان کا ایک فیصد بھی قصور ثابت ہوا تو وہ ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا مستعفی ہو جائیں گے۔
ماڈل ٹاؤن واقعے کی انکوائری مکمل ہوئی تو جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرِ عام پر لانے سے روک دیا گیا۔ واقعے کے بعد جو سب سے بڑا محاز تھا وہ تھا پنجاب حکومت کے خلاف ایف آئی آر کٹوانا۔ ایف آئی میں شہباز شریف اور نواز شریف کو مرکزی ملزم ٹھہرایا گیا، اور تو اور ایف آئی آر میں 7ATA دفعات بھی شامل کروائی گئی، بالکل وہی دفعات جن کی بناء پر جناب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن واقعے کی ایف آئی آر کٹوانے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا بہت بڑا ہاتھ تھا جس کا اقرار جناب طاہر القادری صاحب اپنی پریس کانفرنس میں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کر چکے ہیں۔
ماڈل ٹائن سانحے کے بعد بہت سے دھرنے ہوئے اور بہت سے معاملات طے بھی پائے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے شہیدوں کو دیت کے نام پہ رقم بھی ادا کرنے کا کہا گیا لیکن طاہر القادری تیار نہ ہوئے بلکہ وہ قصاص لینے کی رٹ پر آج تک قائم ہیں۔
جو بھی ہوا غلط ہوا، چودہ لوگ شہید ہوئے، جن کا افسوس ہر پاکستانی کو ہے۔ لیکن یہ مذہبی لوگ، مذہبی رہنما اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے اور انقلاب کے نام پہ کب تک ان لاشوں پر سیاست کرتے رہیں گے؟
کل لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ منظرِ عام پر لانے کا حکم ہوا تو پنجاب حکومت نے رپورٹ شائع کردی۔ ساتھ ہی علامہ طاہر القادری صاحب نے یہ اعلان بھی کردیا کہ ”میرا کنٹینر تیار کردو“، یوں لگتا ہے کہ انصاف کے نام پہ پھر سے ملک میں بھونچال آنے والا ہے اور پھر سے ایک عام شہری کی زندگی برباد ہونے کو ہے۔
پہلے مطالبہ تھا کہ رپورٹ شائع کی جائے، وہ کر دی گئی تو اب کنٹینر کی تیاری کا حکم کیوں؟ علامہ طاہر القادری صاحب، آپ کیوں عام لوگوں کا جینا حرام کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ آپ مذہبی رہنما رپورٹ پکڑیں، ایف آئی آر آپکے پاس ہے اور سیدھے سپریم کورٹ جائیں۔ اسی سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے کر گھر بٹھا دیا ہے۔ آپ بھی وہاں جائیں اور انصاف حاصل کریں لیکن خدارا ایک عام شہری کے بنیادی حقوق کو ضبط کرنے کی کوشش مت کریں۔