لاہور (ویب ڈیسک ) بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی……دعوے بلندو بانگ مگر جب میدان میں اترے تو سارے تیر خطا گئے۔یہی پی ٹی آئی کے لیڈر عمران خان ہی تھے جو حکومت میں آنے سے پہلے ہر ٹاک شو میں اس بات کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے تھے کہ ان کے پاس قابل لوگوں کی ٹیم ہے جس دن وہ حکومت میں آئیں گے تو متعلقہ شعبے کے ایکسپرٹ کو تعینات کرتے ہوئے سبھی معاملات سیدھے کر دیں گے اور ملک و قوم کو خوشحال ہوتے دیر نہیں لگے گی مگر آج جب وہ حکومت میں ہیں اور حقیقت سب کے سامنے ہے کہ ان کی ٹیم کے سب سے قابل اور سپریم لیڈر اسد عمر بھی ناکام ہو گئے۔ لہٰذا انہیں معاشی معاملات چلانے کے لیے امپورٹڈ شخص کو معاملات دینا پڑے۔یہی نہیں بلکہ درجن بھر سے زائد اہم عہدے انہوں نے غیر منتخب افراد کے سپرد کر دیے جس پر وزیراعظم عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم نے گزشتہ روز نجی ٹی وی چینل میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کئی اہم عہدوں پر جان بوجھ کے ایسے لوگ لگائے جا رہے ہیں جو پہلے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں میں رہ چکے ہیں۔ یوں وہ لوگ تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندے ہوں گے نہ کہ پاکستانی عوام کی ترجمانی کریں گے۔یہی نہیں بلکہ انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آغاز میں جن صنعتوں کی نجکاری کے حوالے سے فہرست مرتب کی گئی تھی ان میں پاکستان سٹیل مل بھی شامل تھی مگر اس کونکال دی گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ پاکستان سٹیل مل کی نجکاری نہیں کی جائے گی اور اسے ہم خود چلائیں گے مگر آٹھ ماہ اس پر اربوں روپے لگانے کے بعد دوبارہ سے اس کی نجکاری کافیصلہ کیاگیا ہے۔مگر یہ فیصلہ حکومت کانہیں بلکہ اس کے پیچھے وہ لابی متحرک ہے جس نے پاکستان سٹیل مل کے اثاثوں پر نظر جما رکھی ہے۔وہ لوگ کبھی چاہتے ہی نہیں کہ پاکستان سٹیل مل اپنے پیروں پر کھڑی ہو۔یہی وجہ ہے کہ بالآخر وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گئے اور حکومت کو پاکستان سٹیل مل کی نجکاری کے لیے آمادہ کر لیا ہے۔سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ اگر اسی طرح اہم معاشی عہدوں پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تربیت یافتہ افراد تعینات ہوتے رہے تو بہت جلد ملک کے اکثر اداروں کی نجکاری ہو جائے گی ۔