الحمرا لاہور میں مَیں نے تحریکِ آزادی کے نامور راہنما اور دو قومی نظریہ¿ کے علمبردار سرسیّد احمد خان کے دو سو سالہ جشن ولادت کی تقریب میں 10 جنوری کو صدر ممنون حسین ” مہمان خاص“ کی حیثیت سے دیکھا اور سٹیج پر اُن کے ساتھ ہی رونق افروز تھے سابق صدرِ پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ ۔ ” میزبانِ خاص “ یہ حُسنِ اتفاق تھا یا چیئرمین ” نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ جنابِ تارڑ یا چیئرمین ” کارکنانِ تحریکِ پاکستان “ جسٹس ( ر) میاں محبوب احمد کا ” باہمی اتفاق “ کہ سرسیّد کی ولادت کے جشن کی تقریب کے مہمانِ خاص بھی سیّد ہیں ۔ اِسے حُسن اتفاق ہی سمجھیں کہ ۱۰ جنوری ۱۹۶۶ءکو (پاک بھارت جنگ کے بعد )صدر محمد ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم لعل بہادر شاستری نے ” اعلانِ تاشقند“ پر دستخط کئے تھے ۔
جنابِ محمد رفیق تارڑ ، ” نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کے سینئر وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد چیف کوآرڈینیٹر میاں فاروق الطاف ، سیکرٹری سیّد شاہد رشید اور مشہور صحافی مجیب اُلرحمن شامی صاحب نے اپنی تقریروںمیں سرسیّد احمد خان کی قومی خدمات کے بارے میں حاضرین کی معلومات میں اضافہ کِیا ۔ گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ سٹیج پر بیٹھے رہے ۔ جناب رفیق تارڑ نے اپنے ، ڈاکٹر رفیق احمد اور گورنر محمد رفیق رجوانہ کے ناموں میں تین رفیق حضرات کا تذکرہ کِیا تو مَیں نے اپنے قریب بیٹھی ہُوئی اپنی مُنہ بولی بہن ڈاکٹر پروین خان سے پوچھا ۔ ” کہیں جناب تارڑ صدر ممنون حسین کو ” نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ میں اپنا چوتھا رفیق تو نہیں بنانا چاہتے؟ “ ۔ ڈاکٹر صا حبہ نے کہا ” بھائی صاحب !آپ خود جنابِ تارڑ سے پوچھ لیں اور مجھے بھی بتا دیں“۔ تحریکِ پاکستان کے کارکن سیّد انعام اُلرحمن گیلانی کچھ کہنا چاہتے تھے ۔ پہلی فرصت میں اُن سے ملوں گا۔
تقریب کیا تھی کارکنانِ تحریکِ پاکستان اور مرحوم کارکنان کی اولاد کا میلا تھا۔ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کہا کرتے تھے ” پاکستان کی ہر خاتون ہندوﺅں کی ہر دیوی سے زیادہ مُقدّس ہے “۔ مَیں نے تقریب میں اِس طرح کی کئی مُقدّس خواتین کو دیکھا ۔تحریک پاکستان کے دو ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن چودھری ظفر اللہ خان اور ڈاکٹر ایم اے صوفی پہلی صف میں اپنی اپنی “وہیل چیئر” پر بیٹھے تھے ۔ تقریب کے آغاز اور اختتام پر ہر عُمر کی خواتین و حضرات ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کو یاد کر رہے تھے ۔ سابق مسلم لیگی وزیر شیخوپورہ کے چودھری نعیم حسین چٹھہ نے کہا کہ ” اثر چوہان صاحب!18 جنوری کو ڈاکٹر جمشید احمد ترین کی پہلی برسی ہے ۔ مجھے امید ہے کہ آپ اِس روز اپنے کالم میں ضرور یاد کریں گے “۔ ڈاکٹر ترین صاحب بہت ہی شفیق اِنسان تھے ۔ مَیں آبدیدہ ہوگیا ۔ مہمانِ خاص صدر ممنون حسین نے ”2017ءکو سرسیّد احمد خان کے سال “ کے طور پر منانے کا اعلان کِیا تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا لیکن ”سرسیّد جئے ہزاروں سال “ کا نعرہ کسی نے نہیں لگایا۔
صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد جب جنابِ ممنون حسین نے 20 مئی کو جناب محمد رفیق تارڑ کی قیادت میں تحریکِ پاکستان میں ڈاکٹر مجید نظامی کے ساتھیوں کو ایوانِ صدر میں مدّعو کر کے اُن سے نظریہ¿ پاکستان کو فروغ دینے کے لئے مشاورت کی تھی۔ 2 دِن بعد ” نوائے وقت“ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ” صدر سُخن وَر کے نظریاتی اتالیق “ ۔ 20 مئی2015ءکو قائداعظمؒ کے یوم پیدائش سے 5 دِن پہلے ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور تشریف لائے تھے ۔ جناب محمد رفیق تارڑ نے انہیں یاد گاری شیلڈ سے بھی نوازا تھا۔ اِس پر 22 دسمبر کے ” نوائے وقت “ میں میرے کالم کا عنوان تھا۔ “صدر شیلڈ ماشل” دو تین دِن بعد مجھے صدرِ مملکت کے میڈیا ایڈوائزر فاروق عادل صاحب کا ٹیلی فون آیا اور اُنہوں نے مجھے بتایا کہ ”اثر چوہان صاحب! میرا تعلق بھی آپ کے شہر سرگودھا سے ہے ، مَیں اُن دِنوں سکول میں پڑھتا تھا جب آپ صحافی تھے!“۔
مَیں نے کہا ” فاروق عادل صاحب! مَیں اب بھی سکول میں ہی پڑھتا ہُوں اور اُس سکول کا نام ہے نظریہ¿ پاکستان کا “جی ایچ کیو” ۔ مَیں ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور کو ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کا ڈیرا کہتا ہُوں ۔ 8 نومبر 2013ءکو جنابِ مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں تحریکِ پاکستان کے کارکُن جناب آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ نے اِسے نظریاتی “جی ایچ کیو” کا نام دِیا تھا ۔ 10 جنوری کی تقریب کے اختتام کے بعد فاروق عادل صاحب نے مجھے تلاش کرلِیا۔ برطانیہ میں نظریہ¿ پاکستان فورم کے صدر گلاسگو کے ” بابائے امن “ ملک غلام ربانی میرے ” بڑھاپے کی لاٹھی “ کی طرح میرے ساتھ تھے ۔ مَیں نے اُن سے فاروق عادل صاحب کو ملوایا ۔ دونوں خوش ہوگئے۔ اِس سے پہلے ” بابائے امن “ حاضرین کی پہلی صف میں میرے ساتھ بیٹھے تھے ۔ ہر مقام پر ڈیوٹی پر مامور ” نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کے تین درویش چودھری ناہید عمران گِل، محمد سیف اللہ چودھری اور حافظ محمد عثمان نے اُنہیں لے جا کر سٹیج پر بٹھا دِیا۔ اِس سے پہلے تحریک پاکستان کے کارکن جسٹس ( ر) آفتاب فرخ ، نعیم حسین چٹھہ ، بیگم مہناز رفیع اور مجیب اُلرحمن شامی سٹیج پر بیٹھے تھے۔ سٹیج سیکرٹری کے طور پر سیّد شاہد رشید کامیاب رہے۔
مَیں نے تین گھنٹے ” بابائے امن“ کے گلاسگو کے بزنس مین دوست مشتاق حسین کی رفاقت میں گُزارے ۔ شہر گلاسگو مجھے اپنے شہر ” لہور “ کی طرح لگتا ہے اور اُس کے لوگ بھی اپنے اپنے ۔ اوکاڑہ کے مشتاق حسین 1972ءسے گلاسگو میں آباد ہیں لیکن اُن کی جڑیں پاکستان میں ہیں ۔ اُنہوں نے اپنے علاقے میں کئی رفاہی منصوبے شروع کر رکھے ہیں ۔شاید ” بابائے امن “کی تقلید میں ۔ بزم شعر و نغمہ کی چیئرپرسن محترمہ راحت زاہد اور چیئرمین گلاسگو کلچرل آرٹس گروپ کے شیخ محمد اشرف کی فرمائش پر 2006ءکے ”جشنِ گلاسگو “ میں گائے جانے کے لئے ایک ترانہ لِکھا تھا ۔جِس کے دو شعر تھے ….
” امن و سکُوں کا سفِینہ جیسے
لوگ ہیں اہلِ مدینہ جیسے
سب سے نِرالا ، سب سے جُدا ہے
شہرِ گلاسگو، شہرِ وفا ہے “
28 مئی 2013ءکو یومِ تکبیر کے موقع پر لاہور میں جنابِ نظامی کی صدارت میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے میاں نواز شریف نے اعلان کِیا تھا کہ ” مَیں نے اپنی وزارتِ عظمی کے پہلے دَور میں ایٹمی دھماکا کِیا تھا۔ اب مَیں معاشی دھماکا کروں گا “ ۔ وہ دھماکا کب ہوگا؟۔ شاید صدر ممنون حسین صاحب جانتے ہوں ؟ ۔ صدر ممنون حسین نے اپنی تقریر میں کہا کہ ” پاکستان کا مستقبل بہت تابناک ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ ہمیں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے ۔ ہماری حکومت (یعنی شریف برادران کی حکومتیں ) تعلیم ، صحت ، ٹرانسپورٹ سمیت تمام شعبوں پر توجہ دے رہی ہے “۔پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام کو صدر ممنون حسین کے اِس کلام کو ” ملوک اُلکلام“ کا درجہ دے کر اپنے اور اپنی نسلوں کے تابناک مستقبل کا انتظار کرنا چاہیے ۔ ” شاعرِ سیاست“ کہتے ہی
” کٹے گا ابتلاﺅں کا سفر ، آہستہ آہستہ
گِریں گے جبر کے دیوارو در ، آہستہ آہستہ
….O….
ابھی تو اہلِ ثروت کے مسائل ہور ہے ہیں حل
غریبوں کا بھلا ہوگا ، مگر آہستہ آہستہ“