اسلام آباد(اصغر علی مبارک)صدر اسلامی جمہوری پاکستان نے سپیکرز کانفرنس کا افتتاح کیا اور افتتاحی اجلاس سے خطب کرتے ہوئے کہا کہ چین، ترکی، رشین فیڈریشن، ایران اورا فغانستان کے قابل احترام سپیکر صاحبان، میاں رضا ربانی ، چیئرمین سینیٹ، سردار ایاز صادق، اسپیکر قومی اسمبلی،خطے کے اہم ترین دوست اور برادر ممالک کے اسپیکرز کی میزبانی میرے لیے باعثِ مسّرت ہے ۔ میں اسلام آباد کی خوبصورت فضاؤں میں دل کی گہرائی سے آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ میں توقع کرتا ہوں کہ یہ کانفرنس خطے کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے اور علاقائی ترقی وخوشحالی کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے ضمن میں بے انتہا مفید ثابت ہو گی کیونکہ اس دوران آپ کی باہمی ملاقاتیں اور صلاح مشورہ ایک دوسرے کو مزید سمجھنے اور تعاون کے نئے امکانات کے دروازے کھولنے کا ذریعہ بنے گا، انشا اللہ ۔پاکستان، ایران، چین ، ترکی، روس اور افغانستان ایسے ہمسائے، دوست اور برادر ممالک ہیں جن کا جغرافیہ ، مشترکہ اقدار و خیالات اور ایک جیسے حالات اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے مل جل کر کام کرنے کے وسیع مواقع فراہم کرتے ہیں ۔ ہماری جغرافیائی قربت تاریخ کا دھارا بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی سڑکیں اور ریلوے لائنیں خطے کو پاکستان کے ذریعے پوری دنیا سے ملا رہی ہے۔ زمینی راستوں کا یہ نیٹ ورک ایک خطہ ایک شاہراہ کے ذریعے فاصلے سمیٹ کر دنیا کے مختلف خطوں کو ایک دوسرے سے قریب کردے گا۔ اقتصادی راہداری کی طرح آپٹک ہائی وے مواصلاتی رابطوں کو مزید آسان بنا دے گی اور اس خطے کے صحراؤں ، پہاڑوں اور سمندروں سے گزرنے والی تیل اور گیس کی پائپ لائنیں صنعت و حرفت اور ٹیکنالوجی کا ایک نیا جہاں تخلیق کریں گی۔ اس پس منظر میں؛ میں سمجھتا ہوں کہ عوام کے حقیقی نمائندوں کا یہ اجتماع ان امکانات سے مؤثر طور پر فائدہ اُٹھانے کے لیے تعلیمی، اقتصادی اور ثقافتی سطح پر تعاون کے ضمن میں ٹھوس تجاویز پیش کر سکے گا ۔ مختلف خطوں اور تہذیبوں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان اس سلسلے میں اپنا تاریخی کردار بخوبی ادا کر رہا ہے۔پاکستان اور چین کی انتھک محنت کے نتیجے میں مختلف براعظموں کو باہم ملانے والی اقتصادی راہداری کی مکمل فعالی میں اب زیادہ دیر نہیں رہ گئی جس کے نتیجے میں مغربی چین اور خاص طور پر وسط ایشیا کے ممالک کو بحیرۂ عرب کے ذریعے ایشیا کے دیگر حصوں، افریقہ اور یورپی ممالک کی بڑی مارکیٹوں تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ پاکستان اس عظیم خواب کو تعبیر دینے کے لیے اپنی بہترین کوششوں میں مصروف ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس خطے کا مستقبل فعال رابطوں، باہمی تجارت اور تعاون میں پوشیدہ ہے جس میں پاک چین اقتصادی راہداری ایک نئی روح پھونک دے گی۔ اس جذبے کے تحت ہم خطے کے تمام ممالک کو اقتصادی راہداری میں شرکت کی پر خلوص دعوت دیتے ہیں۔ یہ خطہ جس اقتصادی استحکام اور خوش حالی کا خواب دیکھ رہا ہے ، اس کی تعبیر علاقائی امن و استحکام، پُرامن بقائے باہمی اور ایک دوسرے کے ساتھ خیرخواہی کے پاکیزہ جذبے سے مشروط ہے ۔ اسی جذبے کے تحت پاکستان نے افغانستان میں امن و استحکام کے لیے پُرخلوص اور غیر مشروط تعاون کیا کیونکہ ہم بڑی سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں استحکام سے پورے خطے کا امن وابستہ ہے۔ یہ ایک ایسی مشترکہ خواہش ہے جس کے حصول کے لیے ہم ہر سنجیدہ کوشش میں بھر پور تعاون کریں گے۔ اسی طرح عسکریت پسندی کے سدِباب کے لیے ہم نے سرحدی سلامتی کو مزید بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے ہمسایہ ممالک کو بھرپور تعاون کی پیش کش کی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ سرحدی نگرانی کا فعال نظام اس سلسلے میں مؤ ثر ثابت ہو سکتا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ دہشت گردی ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے خطے کے کئی ممالک میں مسائل پیدا کیے ۔ پاکستان اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران دہشت گردی کی وجہ سے ستر ہزار سے زائد پاکستانیوں نے اپنی جانیں قربان کیں جبکہ ہمیں ایک سو بیس ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے جامع اقدامات کیے ہیں جن میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں کئی کارروائیاں ہوئیں جبکہ آپریشن ضربِ عضب کے تحت قبائلی علاقوں میں مؤثر کارروائی کی گئی۔ حکومتِ پاکستان کے ان اقدامات کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مستقبل قریب میں یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ہو جائے گا، انشا اللہ۔
آپ جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے ضمن میں ہماری مسلح افواج خصوصی تجربہ اور مہارت رکھتی ہیں جس سے ہمارے ہمسایہ ممالک بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس سلسلے میں ہم اپنے تمام دوستوں کے ساتھ مخلصانہ تعاون کی پیشکش کرتے ہیں۔
اس بڑے اور سنگین مسئلے سے نمٹنے کے بعد اب ہماری توجہ اس امر پرہے کہ مستقبل میں ایسی صورتِ حال کبھی پیدا نہ ہو۔ جہاں تک ہمارے خطے کا تعلق ہے،دنیا کے اس حصے کی بیشتر قوموں کے باہمی تعلقات خوشگوار اور ان کے درمیان تعاون کی بہترین فضا موجود ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہم یہ مسئلہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے ذریعے حل کر سکتے ہیں۔ ہماری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ دہشت گردی کوئی مقامی معاملہ نہیں بلکہ اس کا سبب بیرونی طاقتوں کی مداخلت ہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ نائن الیون کے افسوسناک واقعہ کے بعد پاکستان کو جنگ کی اس دلدل میں گھسیٹ لیا گیا۔ ان حالات کی وجہ سے پاکستان میں امن وامان بری طرح متاثر ہوا۔ہماری کوشش ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کیے جائیں تاکہ مستقبل میں اس طرح کے مسائل سے بچا جا سکے۔
مہمانانِ گرامی !
عوام کے حق خود اختیاری اور بنیادی حقوق کی سلبی بہت سے مسائل پیدا کرتی ہے جس کی ایک زندہ مثال کشمیر کا مسئلہ ہے جس کے عوام گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ اس مسئلے نے برصغیر کا امن داؤ پر لگا رکھا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ دیرینہ مسئلہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق فوری طور پر حل کیا جائے تاکہ اس خطے سے جنگ کے بادل چھٹ سکیں۔
آخر میں؛ میں آپ کا پاکستان میں ایک بار پھر خیر مقدم کرتا ہوں اور نہایت مسّرت کے ساتھ پہلی اسپیکرز کانفرنس کا باقاعدہ افتتاح کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں آپ کا قیام آرام دہ اور خوشگوار رہے گا۔ میں آپ سب کی ترقی اورخوشحالی کے لیے دعا گو ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفظ امان میں رکھے، آمین۔
پاکستان پائندہ باد