تحریر: ایم سرور صدیقی
اپنے بارے میں کچھ لکھنا شاید دنیا کا سب سے مشکل کام ہے پھر بھی ”کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں” کے مصداق کچھ نہ کچھ لکھنا ہی پڑتاہے اس کا مطالبہ کافی عرصہ سے قارئین کرام کررہے تھے لیکن ہمت نہیں پڑھ رہی تھی ڈر تھاکہیں قاری اس کالم نما خودساختہ بقلم خود انٹرویو کو اپنے منہ میاں مٹھو قرار نہ دے دیں کچھ اونہہ! یہ منہ اور مسورکی دال کہہ کر نظر انداز بھی کرسکتے ہیںبہرحال جی ٹی روڈ پر واقع چیچہ وطنی اور خانیوال کے درمیان مردم زرخیز علاقہ میاں چنوں میں ہم پیدا ہوئے بنیادی طورپر یہ علاقہ انتہائی پر امن ہے یہاںکے لوگ بہت محبت کرنے والے لوگ ہیں ہوش سنبھالی تو اپنے ارد گرد اخبارات ورسائل کو دیکھافطری طورپرکاغذوں سے محبت سی ہوگئی جو تادم ِ تحریر برقرارہے والد ِ محترم مرحوم و مغفور اتنے پڑھے لکھے نہ تھے پھر اخبارکا مطالعہ کرلیتے تھے بڑے بھائی حاجی محمدریاض کو تاریخ،ادب اور شاعری سے گہراشغف تھا ان کامطالعہ،معلومات اور حافظہ آج بھی ہم چاروں بھائیوں سے بہتربلکہ بہترین ہے چھوٹی سی عمرمیں بچے درسی کتابیں پڑھتے اور ہم بچوں کے رسائل کے ساتھ ساتھ اردوڈائجسٹ،سیارہ اور حکایت چھپ چھپ کر پڑھ ڈالتے تھے پھر مطالعہ کایہی شوق ہمیں میاں چنوں کی پہچان غلام حیدروائیں کے دفتر لے گیا ان کی ذاتی لائبریری میںبہت ۔۔بہت خوبصورت کتابیں تھیں جب ہم نے غلام حیدروائیں کی لائبریری پہلی بار دیکھی ہم پلکیں جھپکانا بھول گئے رانا اسلام اللہ نے میرا شانہ جھنجھوڑکرکہا یار تم کتابوںکو اتنی انہماک سے ایسے دیکھ رہے ہوجیسے کوئی خزانہ دیکھ لیا ہو۔
میں نے ترت جواب دیا یہ خزانے سے کم تر بھی نہیں۔ غلام حیدروائیں جتنے سادہ، شفیق،مہربان اور شائستہ مزاج تھے کتابوں کے معاملہ میں اتنے ہی سخت تھے ہم ان کے تلمبہ روڈ پر واقع دفتر جاتے( ان کی رہائش بھی وہیں تھی) وائیں صاحب سیاست کرتے ہم بیٹھے کتابیں پڑھتے رہتے۔ان سے تعلق اور محبت بڑھی تو ہمارے شوق اور ذوق کے باعث انہوںنے مجھے اور رانا اسلام اللہ کو کتابیں گھرلے جانے کی اجازت دیدی ہماری تو موجیں ہوگئیں کلیاتِ غالب،بانگِ درا،ضرب ِ کلیم،ساغرصدیقی،داغ،استاد ذوق،بہادرشاہ ظفر اور نہ جانے کتنے شاعر وں ادیبوںکی کتابیں اور بیاض پڑھ ڈالے۔۔ ہاں یاد آیا ابھی ہم چھوٹے تھے ہماری گلی میں ایک بابا جی آیا کرتے تھے جسے سب ” رول ” کہتے تھے و ہ پیش گوئیاں کرتا اور قسمت کا حال بتاتا تھا ایک روز والدہ محترمہ نے ہمارا ہاتھ آگے بڑھاکر اس سے استفسار کیا اس بچے کا مستقبل کیا ہے؟ اس نے ہماری ہتھیلی پر نظریں جمائیں ہاتھ کی لکیروں پر انگلی پھیری اور دور خلائوں میں گھورتے ہوئے بولا یہ قلم کی روزی کھائے گا۔۔ قریب کھڑا ایک بچہ قہقہہ مارکرہنسا اپنے ہاتھ پرہاتھ مارکر بولا کیوں بابا یہ قلم تراش کر بیچا کرے گا۔
رول نے اسے ڈانٹا کم بخت کیوں بچوں جیسی باتیں کرتا ہے پھر وہ ہنسا خودکلامی کے سے انداز میںبولا بچہ بچوں جیسی باتیں نہ کرے تو اسے بچہ کہے ” رول” چلا گیا بات آئی گئی ہوگئی قلم کی روزی کمانے کی بات سمجھ میں نہیں آئی لیکن اس کی باتیں جیسے ذہن پر نقش ہوگئیں ۔۔۔کئی سال بعد وہی ” رول” پھرگلی میں آگیا اب وہ پہلے جیسا توانا نہیں تھا اس نے نظرکی عینک لگائی ہوئی تھی اس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی ہمراہ ایک لڑکا بھی ۔۔ہم بے اختیار اس کے پاس چلے گئے ٹھنڈا پانی پلایا اس سے پوچھ ہی لیا بابا اپنا مستقبل کیساہے ؟ اس کے کمزور ہاتھوں نے ہمارا ہاتھ پکڑا کچھ دیرہتھیلی کو الٹ پلٹ کرآتشی شیشے سے دیکھا پھر کئی سال پہلے کی ہوئی بات ایک بار پھر دہرادی بیٹا تو قلم کی روزی کھائے گا بات اس وقت بھی سمجھ میں نہیں آئی اس بات کی کوئی توجیہہ تو پیش نہیں کی جاسکتی لیکن ” رول” کا کہا حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا ہم صحافت سے وابستہ ہوگئے ایک دو مرتبہ اور بھی کاروبار( ٹھیکیداری ، تجارت) کئے لیکن کامیاب نہ ہوئے آج تک کوئی اور کام راس نہیں آیا یقین جانئے لکھنے لکھانے کے علاوہ ہمیں کوئی اور کام آتا بھی نہیں نامساعد حالات اور دن بہ دن عملی صحافیوں کیلئے بڑھتی ہوئی مشکلات کے باوجود اس طرح آج تک قلم سے روزی کما کر کھارہے ہیں۔ کئی اخبارات میں ملازمت کی اپنے اخبارو رسائل کااجراء کیا کسی نہ کسی انداز میں صحافت ہی سے جڑے ہوئے ہیں۔
بچپن سے ہی ذہن میں خیال جم گیا تھاجب دوسرے شہروںسے اخبارات وسائل نکل سکتے ہیں تومیاںچنوںسے کیوں نہیں ؟لیکن سرمایہ نہ ہونے کے باعث ایک ماہانہ رسالہ شروع کیا جو ہم خود ہاتھ سے لکھتے اور دوستوں میں بانٹ دیتے ہر ماہ دس رسالے لکھنا خاصا مشکل اور مشقت طلب کام تھا پھرکسی نے مشورہ دیا کہ غلام حیدروائیں صاحب کے پاس ایک سائیکلو سٹائل مشین ہے جس پر وہ دعوت نامے طبع کرکے سیاسی پروگراموں کی اطلاع کارکنوںکو بھجواتے ہیں ہم نے ان سے ڈرتے ڈرتے بات کی کہ رسالہ چھاپناہے ۔۔انہوںنے کہا یہ تو ہاتھی پالنے والا شوق ہے بیٹا کس چکر میں پڑ گئے ہو ہمارے اصرارپر انہوںنے دفتر کے ایک ملازم کو کچھ سمجھایا ہم نے چندصفحات پر مشتمل” نونہال ِ پاکستان” جس میں سب سے زیادہ تحریریں ہماری تھیں” شائع” تو کرلیا لیکن وہ ہمیں بھی پسند نہیں آیا ہاتھ کے لکھے رسالہ میں تو خوبصورتی کے لئے اخبارات سے کاٹ کر تصویریں چسپاں کردی جاتی تھیں یہ بالکل سادہ تھا جس پر اشتہاری اندازمیں کہانیاں اور نظمیں تھیں۔۔اپنے ”شاہکار” کو دیکھا تو دل بجھ سا گیا پھر اسی کشمکش میں کئی سال بیت گئے کچھ قریبی دوستوں سے مشورہ کیا کچھ تعلق والے دکانداروںسے بات کی ہم نے اپنی پاکٹ منی سے پیسے جوڑناشروع کردئیے کلاس فیلو رئوف شاہد سے بات کی اس کی ڈرائینگ بھی اچھی تھی( اب وہ بہترین کارٹونسٹ ہیں) اس نے ایک ماہ اپنی تمام تر صلاحیتیوں سے ایک بچوں کا رسالہ تیارکیا ہم دونوں اسے چھپوانے کیلئے ملتان گئے لیکن ہمارے پاس ڈیکلریشن نام کی کوئی چیز تھی نہ مطلوبہ رقم ۔۔
پریس والوںنے چھاپنے سے انکارکردیا اوریوں لوٹ کے بدھو گھر واپس آگئے لیکن یہ شوق کم نہ ہوا اسی اثناء میں شہرمیں ایک پرنٹنگ پریس کا افتتاح ہوا جس نے آتش ِ شوق کو مزیدہوا دیدی شاید اس کے پاس ہم پہلے گاہک تھے پریس والا بہت خوش تھا اس نے کہا ڈیکلریشن کے بغیر بھی کتابی سلسلہ کے نام پروقتاً فوقتاً رسالہ نما چھاپا جا سکتاہے ایک روز ہم کتابت کا پروف چیک کرنے پریس گئے تووہاں ملتان سے تعلق رکھنے والے ان کے کوئی دوست بھی آئے ہوئے تھے نام ان کا ذہن سے محوہوگیاہے بہرحال وہ ایک معروف ادیب تھے انہوں نے ہماری ایک تحریر پڑھی بے ساختہ کہا کمال ہے۔۔ ملازم لڑکے کو آوازدی یار اچھی سی چائے لائو ہمیں مخاطب کرکے کہا اس عمر میں بھی اچھا لکھتے ہو بس لکھتے رہا کرو کہیں چھپے نہ چھپے وہ بولے توبولتے چلے گئے لکھنے کیلئے اچھے اچھے شاعروں ادبیوںکو پڑھنا انتہائی ضروری ہے مطالعہ کے بغیر کوئی اچھا لکھاری نہیں بن سکتا۔
تحریر: ایم سرور صدیقی