اب اقاموں کی سیاست زور پکڑنے لگی ہے۔گویا ہماری سیاست کے بعض اہم ناموں کو مستقل طور پر آؤٹ کرنے کے لیے ایک نیا حربہ اور ہتھکنڈہ بروئے کار ہے۔ بعض عرب اور خلیجی ممالک میں رہنے کے لیے مطلوب ’’اقامہ‘‘بعض سیاسی ذمے داروں کے گلے کاطوق بنانے کی تیاریاں تیز پکڑ رہی ہیں۔ اِس ضمن میں نون لیگ کے کچھ نام لیے جارہے ہیں اور پیپلز پارٹی کو بھی اسی فہرست میں شامل کرنے کی کوششیں سامنے آ رہی ہیں۔
جس طرح کی ’’ہوا‘‘ چل رہی ہے ، ممکن ہے چند دنوں میں پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی کے چند اکابرین کے بھی ’’اقامے‘‘ منصہ شہود پر آجائیں۔ پہلے وزیر اعظم نواز شریف کا ایک مبینہ اقامہ سامنے لایا گیا اور شور مچایا گیا: لو جی، وزیر اعظم کو نااہل ثابت کرنے کا ایک ’’اور ثبوت‘‘ منظرِ عام پر آگیا، اب میاں صاحب تو بچ ہی نہیں سکیں گے۔واویلا کرنے والی اِن قوتوں کو’’ اقامے ‘‘کے حوالے سے نون لیگ کی طرف سے حقائق کا آئینہ دکھایا گیا تو بولتے لَب مہر بہ لَب ہو گئے۔ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر کے مبینہ ’’ اقامے ‘‘ کا بھی شہرہ ہے۔ سیالکوٹ ہی سے پی ٹی آئی کے ایک متحرک لیڈر، عثمان ڈار، نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے کہ اس وفاقی وزیر کو بھی ’’اقامے‘‘ کی بنیاد پر ہمیشہ کے لیے فارغ کیا جائے۔
خواجہ آصف کے خلاف ڈار صاحب کے واویلے میں اب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ بھی شامل ہو گئی ہیں۔اُن کا اور ڈار صاحب کا دکھ سانجھا ہے کہ دونوں ہی خواجہ آصف کے مقابلے میں انتخابی شکست خوردہ ہیں۔ جس ’’اقامے‘‘ کا ڈراوا اور ہوّا جناب نواز شریف کو دیا اور دکھایا جارہا ہے، سندھ کی ایک اہم ترین مقتدر سیاسی شخصیت کا بھی ایک مبینہ’’اقامہ‘‘ برآمد کر لیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا میں اس ’’ اقامے ‘‘ کا عکس دکھا کر جعلی عکس ڈالنے کی بھرپور مہمات جاری ہیں ۔ خیال یہ ہے کہ اِن کا بھی وہی حشر ہونے والا ہے جو اس سے قبل ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن کی مبینہ کرپشن کے بارے میں تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹیز کے نتائج کا ہُوا ہے۔پانامے کے بعد اگر اقامے کے دباؤ بھی کامیابی سے ہمکنار ہو گئے تو جناب آصف علی زرداری کے بھی دھرے جانے کے امکانات ’’روشن‘‘ ہیں کہ وہ بھی عرصہ دراز سے دبئی کو اپنا محفوط ٹھکانہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اس کی حدت کا احساس ابھی سے کیا جانے لگا ہے کہ ابھی کل ہی پیپلز پارٹی کے ترجمان جناب قمر زمان کائرہ نے ایک خصوصی پریس کانفرنس میں وضاحت کرتے ہُوئے کہا ہے کہ ’’اقامے‘‘ کے حوالے سے آصف زرداری صاحب پر گرفت نہیں کی جا سکتی کہ ’’اُن کے پاس دبئی میں اقامت کے لیے باقاعدہ مطلوبہ ویزہ ہے۔‘‘واللہ اعلم۔
سوال مگر یہ ہے کہ جب غیر جمہوری آندھیاں کسی انسان یا گروہ کو ملک میں قدم جمانے اورپاؤں ٹکانے ہی نہ دیں تو پھر ملک سے باہر سینگ سمانے کی کوشش نہ کی جائے تو کیا کِیا جائے؟ پھر زندگی گزارنے اور منہ میں لُقمہ ڈالنے کے لیے ’’اقاموں‘‘ کی بھی ضرورت پڑتی ہے کہ غیر ممالک نے اپنی سر زمینوں کوبہر حال کسی قاعدے قانون کا پابند بنا رکھا ہے۔منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال صاحب نے تو کسی تردداورجھجک کے صاف کہہ دیا ہے کہ ’’مجھے اقامہ رکھنے پر کوئی تاسف نہیں ہے ۔ مدینہ منورہ میں رہنے کے اعزاز سے شرف یاب ہونے کے لیے اقامے کا رکھنا ضروری تھا۔‘‘ جناب نواز شریف کے تعاقب میں لگی قوتوں نے ’’اقامہ‘‘ کی شکل میں اُن کے سامنے(بقول منیر نیازی) آزمائش کا ایک اور دریا ڈال تو دیا ہے لیکن اپنے ارادوں و عزائم کے پکّے میاں محمد نواز شریف اس دریا کو بھی عبور کر جائیں گے۔
نواز شریف کو گھیرنے کے لیے ایک مُکّی اُٹھتی ہے تو دوسری تیار کر لی جاتی ہے۔چوہدری نثار علی خان کے بین السطور بیانات ، پریس کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کرنا اور پھر اسے معطل یا ملتوی کرنا بھی تو نواز شریف کے اعصاب کا امتحان ہی ہے۔ ایک نئے ، منفرد دباؤکی شکل میں۔مفاہمت کا رویہ اختیار کرتے ہُوئے نواز شریف اِس دباؤ کا بھی مقابلہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور اس میں سرخرو بھی ہوں گے۔
چوہدری صاحب یقینا نون لیگ کے معروف، مشہور، کامیاب اور اپنی قطع کے منفرد سیاست کار ہیں لیکن واضح رہنا چاہیے کہ اُن کا تمام تر سیاسی طنطنہ ، سیاسی و انتخابی کامیابیاںاور اسٹیبلشمنٹ میں اُن کا مبینہ احترام صرف اور صرف جناب نواز شریف کی ذاتِ گرامی کی وجہ سے ہے؛چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ چوہدری صاحب اگر کوئی ’’مرکزِ گریز‘‘ فیصلہ کرتے ہیں تو وہ نواز شریف کو نقصان پہنچانے کے بجائے خود اپنے سیاسی قد و کاٹھ کو گزند پہنچائیں گے۔
ہاں ، بہرحال نون لیگ کے اس اقدام کی تحسین کی جانی چاہیے کہ چوہدری نثار کو یہ یقین دہانی کرا دی گئی ہے کہ (خدانخواستہ) نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں کسی جونیئر لیگی کو وزیر اعظم کے عہدے پر متمکن نہیں کیا جائے گا۔ پارٹی ڈسپلن کا بھی مگر یہ تقاضا ہے کہ پارٹی کا رہبر(نواز شریف) اگر پارٹی کے کسی جونیئر کو بھی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز کر دیتا ہو تو چوہدری نثار علی خان صاحب کو یہ فیصلہ دل و جان سے قبول کرنا چاہیے(کیا یوسف رضا گیلانی کی عدالتی نااہلی کے بعد پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما، آصف زرداری، کا راجہ پرویز اشرف کے حق میں فیصلہ من وعن تسلیم نہیں کیا گیا تھا؟) حال مگر یہ ہے کہ بعض افراد اپنی انا اور ناک کو پارٹی ڈسپلن پر مقدم رکھنا چاہتے ہیں۔
یہ بھی ایک دلچسپ صورتحال ہے کہ آجکل جب تین چار نون لیگی شخصیات کا نام بطورِ متبادل وزیر اعظم لیا جارہا ہے تو ان میں سے کسی نے بھی واضح اور بلند لہجے میں یہ نہیں کہا ہے کہ مجھے اپنے لیڈر کی موجودگی میں وزیر اعظم بننے کی ضرورت ہے نہ طلب۔ اِس پیش منظر میں کیا یہ کہنا بجا نہیں ہوگا کہ انکار اور تردید نہ کرکے ہمارے یہ اہم سیاستدان ’’لالچ‘‘کے ہاتھوں کھلونا بن رہے ہیں؟
ملک کے اندر لاء اینڈ کی جو صورتحال ہے، وہ بھی دباؤ بن کر وزیر اعظم نواز شریف کو چیلنج کررہی ہے۔ لاہور میں دودرجن سے زائد انسانوں کی جان لینے اور اتنے ہی افراد کو شدید گھائل کرنے والا تازہ خود کش دھماکا، کراچی میں گذشتہ دو ہفتے کے دوران تین درجن سے زیادہ پولیس کے جوانوں کی شہادت، بلوچستان میں بھی حالیہ دنوں میں پولیس افسروں کا دہشت گردوں کے ہاتھوں جاں بحق ہونااور تازہ لاہور دھماکے کے بعداس امر کا انکشاف کہ وہاں کروڑوں روپے کے نصب کردہ کیمرے سرے سے کام ہی نہیں کر رہے تھے، نواز شریف کے لیے پریشانی اور دباؤ کا سبب تو یقینا ہیں۔ عوام کی نظریں بار بار اپنے وزیر اعظم اور قائد کی طرف اُٹھتی ہیں۔ میاں صاحب کو بھی اس سنگین صورتحال کا بھرپور ادراک اور احساس ہوگا۔
سوال مگر یہ ہے کہ راستے مسدود اور محدود کرکے اُن سے بہترین کارکردگی کی امید کیسے اور کیونکر کی جا سکتی ہے؟اس سب کے باوصف وزیر اعظم صاحب ملک کے استحکام، اس کی معاشی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور اِسے مسلسل جمہوری پٹڑی پر چلائے رکھنے کی اپنی سے مقدور بھر کوششیں کررہے ہیں۔ بحران اور بھنور اگرچہ عمیق اور گمبھیر ہیں، مگر وہ اِن سے نبرد آزما ہونے کے لیے پوری تندہی اور توانائی سے کام لیتے نظر آ رہے ہیں۔ گیلپ پاکستان کے تازہ ترین سروے میں بھی 49فیصد پاکستانیوں نے رائے دی ہے کہ نواز شریف کو ہر قسم کے فیصلوں کے مقابل ’’فائیٹ‘‘ کرنی چاہیے۔
عالمی محاذ پر بھی نوازشریف کو درپیش دباؤ کم نہیں ہیں۔ امریکہ ، بھارت اور افغانستان سر پر چڑھتے آرہے ہیں۔ امریکہ نے تو پاکستان کے حصے میں آنے والے ’’کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کے پانچ ارب روپے(پچاس ملین ڈالرز) بھی روک لیے ہیں۔امریکی سینیٹرزالگ پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔اِن حالات میں وزیر اعظم نواز شریف کی اگر ملک کے اندرہی راہیں مسدود کرنے کی جسارت کی جاتی رہی تو گمبھیر مسائل کے حل کی طرف قدم اٹھانا اور دشمنانِ پاکستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دینا دشوار تر ہو جائے گا؛ چنانچہ مخالف ملکی سیاسی قوتوں کو بھی وسیع تر قومی مفاد میں ہوش کے ناخن لینا ہوں گے!!