ٓتحریر: ابن ریاض
ہمارے پیارے ملک میں جرم کرنا انتہائی آسان ہے ا ور اس کا سراغ لگانا ازحد مشکل سراغ تو درکنار جرم کی تو اکثر نوعیت کا ہی پتہ نہیں چل پایا اور کچھ مدت بعد بیشتر وقوعے داخل دفتر ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک بار ایک بہت ہی اہم معاملہ درپیش تھا۔ اس کی تفتیش ایک افسر کے سپرد کی گئی۔ کچھ دنوں بعد اس سے رپورٹ مانگی گئی۔ اس میں لکھا تھا۔’ مورخہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو رات دس بجے چند نامعلوم افراد ایک گاڑی میں بیٹھ کر آئے جس کا نمبر نامعلوم ہے اور واردات کے بعد نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئے’۔
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دور کا فسانہ ہے
اب وہ وقت گزر گیا۔ اب ہماری تفتیشی ٹیمیں جدید تربیت سے لیس ہیں۔ ان کی آنکھوں میں اب کوئی دھول نہیں جھونک سکتا۔ اب تو ہماری ان ٹیموں کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ اکثر انھیں جرم سے پہلے ہی علم ہوتا ہے کہ آج فلاں جگہ واردات ہو گی۔ اب اس کے باوجود واردات ہو جائے تو اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کیا دوش۔ ہونی تو ہو کر رہتی ہے۔اس کو کون ٹال سکتا ہے۔ مگر دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے اداروں کا عزم و استقلال اور قربانیاں یقینًا قابل ستائش ہیں اور وہ وقت دور نہیں کہ ہمارا پیاراملک اس لعنت سے پاک ہو جائے گا ان شائ اللہ۔۔
دہشت گردی کے علاوہ ایک اور ناسور جس نے اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وہ مہنگائی ہے اور یہ دہشت گردی سے بھی بڑا عفریت ہے۔ وہشت گردی تو 2001 ئ کے بعد شروع ہوئی۔ اس سے قبل تو ملک میں کافی امن تھا۔ ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا سب کو اسی کا رونا روتے دیکھا ہے۔ ہر سال بجٹ میں جو اضافہ تنخواہ میں ہوتا ہے، اس ست کئی گنا زیادہ اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں۔ تہواروں یعنی رمضان، عید اور محرم وغیرہ کی مہنگائی اس کے علاوہ سمجھیں۔ پھر بین الاقوامی مہنگائی بھی ہوتی جو کہ تیل ، ڈالر اور سونے وغیرہ کی قیمتی کے ساتھ نتھی ہوتی ہے۔
مسئلہ کے حل کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کی ٹھیک تشخیص کر لی جائے۔ورنہ معاملہ مرض بگڑتا گیا جوں جوں دوا کی والا ہو جاتا ہے۔ سابقہ حکومتوں نے بہت کوشش کی مگر کوئی بھی مرض کی اصل جڑ تک نہ پہنچ پایا۔ مگر ہماری تفتیشی اداروں کی کارکردگی کا اثر حکومتی اداروں پر بھی پڑا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وزیر خزانہ نے اس کی اصل جڑ تک جا پہنچے۔ ان کا یہ بیان سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ان کا فرمانا ہے کہ مہنگائی کی وجہ وہ بچے ہیں جو گھر سے خریداری کے لئے زیادہ رقم لے کر جاتے ہیں اورر پھر سودا سلف لانے کے بعد بقایا واپس نہیں کرتے بلکہ اپنی اللوں تللوں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ہم ایسے کئی بچوں کو جانتے ہیں جو کہ ایسا کرتے ہیں مگر یہ گمان کبھی نہ گزرا کہ اس سے مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ تو اپنے ہی لنکا ڈھا رہے ہیں۔ ہم خواہ مخواہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خورون کو اس کا ذمہ دار گردانتے رہے۔ان کا تو کوئی قصور نہیں۔ ہ اپنے گمان بد پر ان سے شرمندہ ہیں۔
وزیر خزانہ نے تشخیص تو کر لی اور بہت خوب کی۔ اب امید ہے کہ وہ اس کا علاج بھی بتائیں گے۔ اس کانفرنس میں تو انھوں نے نہیں بتایا ۔ایک حل تو یہ ہو سکتا کہ والدین خود خریداری کریں اور پیسے بچوں کے ہاتھ میں نہ رکھیں۔ مگر کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی مجبوری میں وہ بہرحال ایسا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور پھر چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے کے مصواق یہ بچے مہنگائی کا باعث بنیں گے۔ مرض کا ختم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد پر ضرب لگائی جائے۔ یعنی کہ بچوں کو ہی کم کیا جائے۔ بالکل ایسے ہی جیسے غریب ختم کرنے سے غربت از خود ختم ہو جائے گی۔ بچوں میں کمی کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ سیدھا اللہ تعالٰی سے کہا جائے کہ یہ بچے مہنگائی کا باعث بن رہے ہیں سو انھیں ہمارے پاس نہ بھیجیں۔یہ تھوڑا ٹیڑھا ہے۔ وزیر موصوف کی بات تو دوست ممالک اکثر نہیں مانتےاس بات کی کیاضمانت کہ اللہ میاں مان جائیں۔
دوسرا حل یہ ہے کہ بچوں کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہیچایا جائے۔اس کا حل یہ ہے کہ بچوں کی پیدائش کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ حکومت اس سلسلے میں کام تو کر رہی ہے کہ بچوں کے کھانے کی غذا اور دودھ وغیرہ پر ٹیکس لاگو ہے مگر اتنا سا ٹیکس مسئلے کی پیچیدگی کے حساب سے اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں۔ اس کا بہتر حل یہ ہے کہ بچے کی پیدائش پر ہی ٹیکس لگا دیا جائے۔اس کے علاوہ شادی کو بھی مشکل بنایا جا سکتا ہے۔ اس پر بھی مہندی ٹیکس، جہیز ٹیکس، دودھ پلائی ٹیکس، جوتا چھپائی ٹیکس عائد کیے جا سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لئے یہ ٹیکس دینا کچھ مشکل نہیں۔ ان کے لئے این ٹی ایس طرز کا کوئی امتحان بھی رکھا جا سکتا ہے کہ شادی کرنی ہے تو پہلے اسے پاس کرو۔ اس سے شادی کے رجحان میں کافی کمی آنے کا امکان ہے جس سے مہنگائی قابو میں آ جائے گی۔ ویسے بھی شادی کوئی زیادہ اچھی شے نہیں۔ یہ نہ ہو تو طلاق نہیں ہوتی۔ ہمارے سیاست دانوں سے زیادہ اسے کون جانتا ہے۔
ٓتحریر: ابن ریاض