گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو وائرل ہو گئی جس میں ایک لڑکا اور تین لڑکیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو کے وائرل ہوتی ہے لڑکیوں کے رشتہ داروں نے دو لڑکیوں کو قتل کر کے دفن کر دیا۔
گزشتہ ہفتہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت تیزی سے وائرل ہوئی۔ جس میں ایک نوجوان لڑکا تین لڑکیوں کے ساتھ کھڑا سیلفی موڈ میں ویڈیو بنا رہا ہے۔ پہلے ایک لڑکی سے پشتو میں بیٹھنے کو کہتا ہے جس پر لڑکی کہتی ہے کہ کیا یہ جگہ بیٹھنے کی ہے؟ پھر وہ اس کے ہونٹوں پر بوسہ کرتا، پھر یہ لڑکا دوسری لڑکی سے بھی اسی طرح کرتا ہے۔ لڑکا جب تیسری لڑکی کی طرف بھاگ کر چومنا چاہتا ہے تو وہ بھاگ جاتی ہے اور شاید یہی بھاگنا ہی اس کی زندگی بچنے کی وجہ بنا ہوا ہے۔
اس ویڈیو کے وائرل ہوتی ہے لڑکیوں کے رشتہ داروں نے دو لڑکیوں کو قتل کیا اور دفن بھی کیا لیکن ان کی قبریں بھی کسی کو معلوم نہ ہو سکی جبکہ ایک لڑکی اور لڑکا جس کا نام عمر ایاز بتایا گیا ہے، چھپ گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ لڑکیاں آپس میں کزنز ہیں اور مرکزی ملزم بھی ان کا رشتہ دار ہے اور ان کی رہائش بھی ایک دوسرے کے قریب ہے۔
مقامی پولیس قتل کے الزام میں چار افراد کو گرفتار کر چکی ہے۔ ان چار افراد پر دو لڑکیوں کے قتل کا الزام ہے۔ آخری اطلاعات تک تیسری لڑکی اپنے رشتہ داروں کے پاس ہے اور زندہ ہے جبکہ لڑکے کو شمالی وزیرستان کے پولیس نے پکڑ کر میران شاہ جیل میں بند کر دیا یے۔یہ واقعہ شمالی وزیرستان کے دور افتادہ علاقہ گڑیوام میں پیش آیا۔ علاقے کے مکینوں کے مطابق اس علاقے میں موبائل فون کے سگنل بھی موجود نہیں لیکن علاقے کے نوجوان اپنے ساتھ قیمتی موبائل فون لازماً رکھتے ہیں کیونکہ ان علاقوں میں یہی موبائل فونز ہی انٹرٹینمنٹ کا واحد ذریعہ ہیں۔ نوجوان مختلف قسم کے ویڈیو بنا کر پھر ڈیرہ اسمعیل خان اور بنوں جا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہیں۔ زیادہ تر قبائلی نوجوان موبائل فونز میں فلمیں دیکھتے ہیں۔
میران شاہ جیل سے ایک اہلکار نے نام بتانے کے شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملزم کو گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔ ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے مقامی پولیس پر سخت دباؤ تھا۔ ملزم کو جیل میں بند کرنے پر اسے دیگر قیدیوں کے طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کسی غیر خاتون کو چومنا یا چھونا قبائلی روایات کے خلاف اور بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ پولیس کے لیے مرکزی ملزم تک رسائی جبکہ زندہ بچ جانے والی لڑکی کی زندگی بچانا بہت اہم اور اولین ترجیح ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کی رپورٹنگ بھی محال
رسول داوڑ سینیئر صحافی ہیں اور ان کا تعلق قبائلی علاقے سے ہیں۔ رسول داوڑ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قبائلی صحافیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اپنے علاقے میں دہشت گردی یا جو بھی واقعہ پیش آیا ہے اس کی رپورٹنگ کی ہیں لیکن غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو مقامی صحافی دو وجوہات کی وجہ سے خود رپورٹ نہیں کرتے: ”اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مقامی صحافیوں کو پتہ ہے کہ اس سے بہت سے لوگ قتل ہوں گے اور یہ بھی کہ علاقے کے صدیوں پرانی روایات کو نظر انداز کرنا بھی صحافی کے لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ انہیں لوگوں کے درمیان اور اسی علاقے کا رہائشی ہوتا ہے۔‘‘
البتہ یہی صحافی اسی طرح واقعات کو دوسرے علاقے کے صحافیوں کی وساطت سے رپورٹ کرتے ہیں ۔ اس طرح واقعہ بھی رپورٹ پوتا ہے اور مقامی صحافیوں کو بھی مشکلات پیش نہیں آتیں۔
سابق قبائلی علاقہ جات میں غیر کے نام پر قتل کے واقعات
شمالی وزیرستان کے علاوہ دیگر ضم شدہ قبائلی اضلاع میں بھی غیرت کے نام پر قتل کے واقعات عام ہیں۔ گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران ایک امیر خاندان کی لڑکی کو اس کے شوہر نے قتل کر دیا تاہم لڑکی کے والدین اور خاندان والوں نے بھی اس واقعے کو دبا دیا کیونکہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی لڑکیوں اور خواتین کے بارے میں بات یا جرگہ کرنا بھی پورے خاندان کے لیے بے عزتی تصور کی جاتی ہے۔55 سالہ ملک گل نواز قبائلی علاقہ کے رہائشی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سینکڑوں مسئلے جرگہ کے ذریعے حل کیے ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے کسی ایسے جرگے میں حصہ نہیں لیا جو غیرت کے نام پرقتل ہونے والوں کے بارے میں ہو: ”اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ اپ کسی کو چومنے یا بغیر شہادت کے گولی مار دو لیکن بس یہ روایات صدیوں سے چلی آ رہی ہیں اور ہمیں بھی دیگر اقوام کی طرح اس طرح کے معاملات قتل کے بجائے قانون اور مذہب کے مطابق حل کرنے چاہییں جس میں کافی وقت لگے گا۔‘‘