اسلام آباد: موجودہ حکومت کل رات بارہ بجے اپنی آئینی مدت پوری ہونے پر ختم ہونے جا رہی ہے اور یہ دن اس اعتبارسے بھی تاریخی دن ہوگا کہ ملک میں پہلی مرتبہ جمہوریت تسلسل کے ساتھ اپنے دس سال مکمل کرنے جا رہی ہے۔
اس سے قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی انتہائی زیادہ متحرک و سرگرم دکھائی دے رہے ہیں ایک جانب وزیراعظم آفس اور وزیراعظم ہاوس مصروفیات کا محور بنا دکھائی دے رہا ہے، ایک کے بعد ایک اجلاس ہورہا ہے جس میں اہم فیصلے ہورہے ہیں تو دوسری جانب وزیراعظم ملک بھر کے طوفانی دورے کررہے ہیں اوراپنی حکومت کے پانچ سالہ دور میں شروع کئے جانیوالے اور مکمل کئے جانیوالے موٹرویز ،پاور پلانٹس سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کررہے ہیں۔ یہ وہ منصوبے ہیں جن کا افتتاح پاکستان مسلم لیگ(ن)کے قائد نوازشریف نے کرنا تھے مگر شاہد خاقان عباسی کررہے ہیںاور اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے مختصر دور میں بہت زبردست کام کیا ہے اورجس انداز سے شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر اپنی جماعت اوراپنی قیادت کا مقدمہ لڑا ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میاں نوازشریف کی نااہلی اور وزارت عظمٰی سے ہٹنے کے بعد شاہد خاقان عباسی پاکستان مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی جانب سے کیا جانے والا بہترین انتخاب تھا اورشاہد خاقان عباسی نے خود کو ہر سیاسی محاذ پر پاکستان مسلم لیگ(ن) کا فرنٹ لائن کمانڈر ثابت کیا ہے اس مشکل ترین وقت میں شاہد خاقان عباسی ثابت قدمی کے ساتھ اپنی جماعت اور قیادت کے کندھے سے کندھا ملا ئے ڈٹ کر کھڑا ہے اور پارلیمنٹ کے اندر و پارلیمنٹ کے باہر اپنی پارٹی و قیادت کا نہ صرف بھرپور دفاع کیا ہے بلکہ ملک بھر میں اہم دورے کرکے اپنی جماعت مسلم لیگ(ن)کی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کو بھی کھُل کربیان کیا ہے اور اسی تسلسل میں منگل کو بھی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے انتہائی مصروف دن گزارا اور قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس کی صدارت کی ، گذشتہ ایک ماہ کے دوران قومی سلامتی کمیٹی کا یہ تیسرا اجلاس ہے جس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، وزیر دفاع اور ڈی جی آئی ایس آئی شریک ہوئے۔
اجلاس میں ملکی داخلی، خارجی سلامتی کی صورتحال اور فاٹا اصلاحات بل سمیت دیگر امور پر غور کیا گیا۔ اس کے علاوہ اجلاس میں سابق سربراہ آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد دُرانی کی کتاب سمیت دیگر اہم امور زیر غور آئے۔
دوسری جانب شاہد خاقان عباسی ہی کی قیادت میں حکومت نے اپوزیشن کے باہمی اتفاق سے نگران وزیراعظم کا اہم مرحلہ بھی خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کرلیا ہے جو ہماری سیاسی و جمہوری میچیورٹی اور پُختگی کی جانب واضح اشارہ ہے سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات غیر متنازعہ نگران وزیراعظم کی موجودگی میں ہونگے کیونکہ جسٹس(ر)ناصر الملک کی بطور نگران وزیراعظم نامزدگی پر پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ آئندہ عام انتخابات کیلئے پچیس جولائی کی تاریخ کا اعلان بھی ہو چکا ہے اور انتخابات کی تیاریاں حتمی مراحل میں پہنچ چکی ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے آئندہ عام انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کوانتخابی نشان کی الاٹمنٹ کا عمل شروع کردیا گیا ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں پاکستان مسلم لیگ(ن) پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم سمیت بغیراعتراضات والی 77 سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان الاٹ بھی کردیئے گئے ہیں جس کے مطابق پاکستان مسلم لیگ(ن) آئندہ عام انتخابات شیر کے نشان پر ہی لڑے گی، اسی طرح پاکستان تحریک انصاف بلے، پاکستان پیپلز پارٹی تلوار ، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین تیر، ایم کیوایم پاکستان پتنگ، متحدہ مجلس عمل کتاب، اے این پی لالٹین اور پاکستان عوام لیگ انسانی ہاتھ کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑے گی جبکہ باقی سیاسی جماعتوں کی انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کی درخواستیں ابھی زیر غور ہیں اور اگلے چند دنوں میں یہ عمل بھی خوش اسلوبی سے مکمل ہوجائے گا اوراس کے ساتھ ساتھ آئندہ عام انتخابات کو صاف و شفاف بنانے اور خون خرابہ سے بچنے کی حکمت عملی پر بھی کام جاری ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گذشتہ چار سال کے دوران ملک میں فروغ پانے والے سیاسی انتشار وشدت پسندی کے رجحان کے نتیجے میں پیدا ہونیوالا سیاسی ماحول انتہائی خطرناک ہے اور پھر کچھ عالمی قوتیں بھی اپنے مذموم عزائم لئے سرگرم دکھائی دے رہی ہیں اور اس مرتبہ ان ملک دشمن قوتوں نے بلوچستان کو نشانہ بنایا ہوا ہے اور انہی مذموم عزائم کے تحت پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے بلوچی زبان میں ریڈیو نشریات کا آغاز کیا ہے اس لئے اس نازک موڑ پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اور سیاسی و عسکری قیادت کو مل کر دانشمندانہ فیصلے کرنا ہونگے اور دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میںملانا ہوگا۔ آئندہ عام انتخات کے موقع پر بڑے پیمانے پر سیکورٹی خطرات ہیں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے بیس ہزار پولنگ سٹیشن پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے جبکہ کمیٹی نے چاروں صوبائی چیف سیکریٹریز سے اس ضمن میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اس کے علاوہ سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی کی متنازعہ کتاب کے معاملے کی تفصیلی تحقیقات کیلئے فوج کے ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کی سربراہی میںفارمل کورٹ آف انکوائری کا حکم دیدیا گیا ہے۔
دوسری طرف سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بیانیہ میں نرمی آنے کی بجائے سختی آتی جا رہی ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ نگران حکومت کے آتے ہی بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں اور شیخ رشید سمیت دیگر کیسوں میں اہم فیصلے بھی متوقع ہیں، یہی نہیں بلکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ میاں نوازشریف بھی جلد اڈیالہ یاترا کیلئے جانے والے ہیں۔ اس حوالے سے کیا ہوتا ہے اس میں اب کوئی زیادہ دیر نہیں ہے دو دن بعد موجودہ حکومت کا سورج ڈوب جائیگا اور یکم جون کا سورج نگران حکومت کی طلوع لے کر ابھرے گا مگر یہ حقیقت ہے کہ تمام تر سخت حالات کے باوجود میاں نوازشریف نہ صرف اپنے بیانیہ پر قائم دکھائی دے رہے ہیں بلکہ انکے بیانیہ میں مزید شدت آرہی ہے اور سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی کی متنازعہ کتاب کے معاملہ کے بعدسابق وزیراعظم نوازشریف نے منگل کو ایک بارپھرقومی کمیشن بنانے کا مطالبہ کردیا ہے۔