ہم جس چیز کو دیکھتے ہیں وہ روشن ہوتی ہے یا روشنی میں پڑی ہوتی ہے جس چیز سے دیکھتے ہیں وہ آنکھیں ہوتی ہیں، آنکھوں کا نور ہوتا ہے۔ روشنی اور نور میں فرق ہوتا ہے اُسے بیان نہیں کر سکتے۔ مگر اُس کے تو ہاتھوں میں بھی نور تھا۔ وہ ہاتھ لگا کر دیکھ لیتا تھا۔ وہ اندھا تھا، نجانے کیوں ایسے اندھے کو نابینا کہتے ہیں۔ وہ جو بینا تھے اس کے ہاتھوں کو چومتے تھے کسی کو چھونا مَس کرنا بھی دیکھنے کی طرح ہوتا ہے۔ سب دیکھنے والے ایسا نہیں کر سکتے۔
ایک دیکھنا نہ دیکھنے کی طرح ہوتا ہے۔ اس کا پیغام اس شعر میں ہے جو اقبال کے لفظوں میں ہے اور کسی کے طرزِ بیان میں نہیں ہے۔
ہودید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
جو عمران خان نے کہا وہ کر کے دکھائے لوٹا ہوا پیسہ واپس لائے۔ ابھی تو ایک پیسہ بھی واپس نہیں آیا۔ ڈاکٹر بابر اعوان اب عمران سے کچھ کہے۔ کوئی کردار تو ادا ہو نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ عمران خان کچھ نہ کچھ کرے گا۔ ورنہ ڈاکٹر بابر اعوان کیوں اُسے جائن کرتا۔ اسٹیبلشمنٹ عمران کے لیے تعاون سے کام لے اور قوم کو مزید انتظار میں نہ ڈالے، امتحان میں نہ ڈالے۔ اب تو امتحان اور انتظار میں نہ ڈالے۔ انتظار ختم ہو گیا توسب کچھ ختم ہو جائے گا اور ہم ہر امتحان میں فیل ہو جائیں گے۔ ابھی ہماری سپلیمنٹری آئی ہے۔ کیا کچھ نہیں ٹوٹا مگر ہماری امید نہیں ٹوٹی۔ ہم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں مگر پوری طرح شکار نہیں ہوئے۔ امیدوں کے جنگل میں ہرنی ایک ہے اور شکاری کئی ہیں۔
خبر ہے کہ شاہ محمود گورنر سرور اور عثمان بُزدار کی عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے۔ یہ ملاقات پہلے بھی کئی بار ہو چکی ہے۔ اس ملاقات سے ہوا کیا ہے۔ ملاقاتیں تو میری بھی کئی ’’اہم‘‘ لوگوں سے ہوئی ہیں مگر صرف ملاقات کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ حیرت ہے کہ یہ بات اس بات کا حصہ ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں جزا اورسزا کا نظام لائیں گے۔ ابھی ہماری ’’گے گی اور گا‘‘ سے جان نہیں چھوٹ سکی۔ خبر تو یہ ہے کہ ہم سرکاری ہسپتالوں میں جزا سزا کا نظام لے آئے ہیں اور غریب مریضوں کا بھلا بھی ہو رہا ہے۔ یہ تو الیکشن سے پہلے کے اندازِ خطابت کا طریقہ ہے۔ اسی خبر میں وزیراعظم عمران خان نے فرمایا۔ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ یہ میرے اخبار نوائے وقت کی شہ سُرخی ہے۔
نجانے یہ خطاب وزیراعظم نے کس سے کیا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ مطالبہ وزیراعظم نے وزیر اعظم سے کیا ہے۔ یہ بھی خوشخبری موجود ہے۔ کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کریں گے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کے طرزِ پر مینجمنٹ لا رہے ہیں۔ وہ اعلان کر رہے ہیں اور ینگ ڈاکٹروں نے ہڑتال کر دی ہے۔ اچھے ڈاکٹروں کو بہترین تنخواہیں دیں گے۔ بدترین تنخواہیں دینے کے لیے فیصلہ کون کریگا۔ کون بُرا ڈاکٹر ہے اور کون اچھا ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹروں کو نکال باہر کرنیکی دھمکی بھی ہے۔ یہ بھی تو خیال رکھیں کہ ہماری صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بھی تو ڈاکٹر ہے۔ اس کے بُرا یا اچھا ہونے کا فیصلہ کس طرح ہو گا۔ اس کے لیے تحریک انصاف کی مخلص اور جانثار ورکر اور لیڈر ثروت روبینہ سے پوچھ لیں۔
کالم کے آخری حصے میں کچھ زبردست باتیں جو سیاستدانوں نے کہی ہیں، کیسے کہی ہیں۔ بس کہہ دی ہیں۔ پہلے بھارتی کرکٹر اور اب سیاستدان نوجوت سندھو نے یہ بات اپنے وزیر اعظم کے لیے کہی ہے۔ مودی اُس دلہن کی طرح ہے جو روٹیاں کم پکاتی ہے ، چوڑیاں زیادہ کھنکھناتی ہے۔ نوجوت سندھو پاکستان میں زیادہ دوست مقبول ہوا۔ جب کرکٹ میچ دیکھنے آیا، عمران اور آرمی چیف سے گلے ملا۔ نجانے کیوں اس نے اپنے آپ کو نوجوت سنگھ نہیں کہا نوجوت سدھو کہا۔
ہمارے ذوالفقار مرزا خوب سیاستدان ہیں۔ جی دار آدمی ہیں۔ ایک گہری اور ذومعنی بات کی ہے۔
’’آصف زرداری دوسرا الطاف حسین ہے‘‘
الطاف حسین اب قصۂ پارینہ بنتا جا رہا ہے ورنہ اس کی تقریر روزانہ سننا پڑتی تھی۔ ہر ٹی وی چینل اس کو لائیو دکھانے پر مجبور تھا۔ جنرل راحیل شریف نے اس کے لئے پابندی لگائی تو پھر اُس کی آواز نہ آئی۔ اس کے لیے کوئی آواز بھی نہ آئی۔ زرداری اپنے ایک جملے پر خود ہی بلکہ خودبخود جلاوطن ہوئے۔ جنرل راحیل کے جاتے ہی زرداری اپنے شہر واپس آ گیا۔ نجانے کیوں میں اُسے پسند کرتا ہوں ، یہ نہیں بتائوں گا کہ کیوں پسند کرتا ہوں ، مجھے معلوم نہیں زرداری کو معلوم ہے مگر وہ بھی نہیں بتائے گا۔