اسلام آباد (یس ڈیسک) سپریم کورٹ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ عدلیہ اپنی استعداد سے بڑھ کر کارکردگی دکھا رہی ہے۔
عدلیہ کے حوالے سے وزیر اعظم کا بیان پڑھ کردکھ ہوا جب کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ مقدمات کے زیر التواہونے کی کوتاہی عدالتی نہیں حکومتی ہے، عدالت نے ناقص تفتیش اور ناقص استغاثہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ گناہ گاروں کو عدالتوں سے سزائیں دلوانا سرکارکی آئینی ذمے داری ہے۔
اگر سرکار ناکام ہو گئی ہے تو عوام کے سامنے نااہلیت کااقرار کر لے، جسٹس جوادایس خواجہ اور جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ناقص تفتیش، ناقص استغاثہ اور پولیس کی طرف سے جھوٹے مقدمات کے اندراج کے مقدمے کی سماعت کی، عدالت نے کہا خرابیاں عدالتوں میں نہیں حکومت میں ہیں، ملزمان کوسزادلوانے میں ناکامی عدالتوں پرنہ ڈالیں، سسٹم کا مذاق نہ بنایا جائے، سسٹم نہیں رہے گا توکچھ بھی نہیں رہے گا۔
جسٹس جواد نے کہا ریاست کے ایک اہم اعلیٰ عہدیدار نے تو یہ کہہ دیا کہ ایک لاکھ 60 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں، عدالتوں سے فیصلے نہیں ہوتے لیکن یہ نہیں کہا یہ نا اہلی کس کی ہے، نااہلیت حکومت کی اپنی ہے تو پھر عدالتوں پرذمے داری کیوں عائد کی جارہی ہے۔عدالت کا کہنا تھا حکومت ہر فوجداری مقدمے کا لازمی فریق ہے، اگر جرائم کی تفتیش اور استغاثے کا حکومتی نظام ہی ناقص ہے تو عدالتوں کو کیسے ذمے دار ٹھہرایا جا سکتا ہے،یہ انصاف دینے کی عدالتیں ہیں سزائیں دینے کی نہیں۔
فاضل جج نے کہا تفتیش اوراستغاثہ کی خرابیوںکو ٹھیک کرنا اور قوانین میں موجود سقم دورکرنا حکومت کی ذمے داری ہے، اگر حکومت اپنا کام نہیں کر سکتی اور سمجھتی ہے کہ یہ کام بھی عدلیہ کرے تو پھر آئین میں ترمیم کرکے عدلیہ کو اختیار بھی دیدیا جائے۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے رپورٹ پیش کی کہ وفاقی حکومت کو قوانین میں ترمیم کی سفارش کی گئی ہے اس پر عدالت نے حیرت کا اظہار کیا۔
جسٹس جواد نے کہا شاید اٹھارویں ترمیم کوکسی صوبے نے نہیں پڑھا، ملزمان کا استغاثہ صوبائی معاملہ ہے، پنجاب حکومت کو تویہ معلوم نہیں کہ وہ استغاثہ کی خرابیاں دورکرنے کیلیے قوانین میں ترامیم کرنے کی مجاز ہے یا نہیں۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا اگر پنجاب میں ایک سال کے اندر ایک لاکھ 40 ہزار فوجداری مقدمات میں سے 60 ہزار پہلی سماعت پر خارج ہوں تو نااہل کون ہے؟ عدالت نے سماعت 26 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے چاروں صوبوں سے زیر التوا فوجداری مقدمات کی تفصیل طلب کرلی ہے۔
دوسری طرف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں فل بینچ نے جیل اصلاحات کے بارے میں از خود نوٹس کا مقدمہ اور حکومت سندھ کی اپیلیں نمٹا دی ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ انتظامی معاملات کو دیکھنا عدالت کا کام نہیں، ازخود نوٹس حکومت کو جھنجھوڑنے کیلئے لیا جاتا ہے، بتایا گیا ہے کہ حکومت جاگ گئی ہے۔ اس لئے کیس بندکیا جاتا ہے۔
جسٹس آصف سعید نے کہا کہ آج کا بیان دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ 17 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، عدالتیں کارکردگی دکھائیں، عدالتیں اپنی صلاحیت سے بڑھ کر کارکردگی دکھا رہی ہیں ،17 لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں مگر جج صرف 24 ہزار ہیں۔
جج لگانا حکومت کا کام ہے جب اسے ججوںکی سیٹیں پوری کرنے کیلئے کہا جاتا ہے تو فنڈزنہ ہونے کا بہانہ بنا لیا جاتا ہے، حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کرے۔این این آئی کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا عدلیہ اپنی استعداد سے بڑھ کر کارکردگی دکھا رہی ہے، عدلیہ بارے وزیر اعظم کا بیان پڑھ کر دکھ ہوا۔