اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزرا کے آپسی رابطوں کے فقدان پر وزیراعظم عمران خان نے سخت برہمی کا اظہار کردیاہے ۔ تفصیلات کے مطابق پاور اور پٹرولیم ڈویژن میں رابطوں کے فقدان کی وجہ سے بائیس کروڑ عوام کو خمیازہ بھگتنا پڑ گیا۔ عوام صرف دو وزرا کی غفلت کے بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ پاور اور پٹرولیم ڈویژن میں سے ایک ڈویژن گیس کی طلب سے متعلق تفصیلات فراہم کرتا ہے جبکہ پٹرولیم ڈویژن پاور ڈویژن کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات کے تحت وسائل کا انتظام کرتا ہے۔پاور ڈویژن کی جانب سے ایک ڈیمانڈ دی گئی تھی کہ ہمیں نومبر اور دسمبر میں گیس کی کتنی ضرورت ہو گی،کتنا فرنس آئل چاہئیے ہو گا، پاور ڈویژن نے ان تمام تر تفصیلات سے پٹرولیم ڈویژن کو آگاہ کر دیا تھا ۔لیکن جب پاور سیکٹر کو گیس کم ملی جس کی وجہ سے گیس سے پیدا کی جانے والی 2600 میگا واٹ سستی بجلی کی بجائے صرف 1200 میگا واٹ بجلی ہی پیدا کی جا سکی اور بقایا بجلی کے شارٹ فال کو کور کرنے کے لیےے پاور پلانٹس میں فرنس آئل کا استعمال کیا گیا جو مہنگا آئل ہے۔فرنس آئل کے استعمال سے قومی خزانے کو بارہ ارب روپے کا نقصان پہنچا جس کی تلافی جنوری کے بلوں میں عوام کو کرنا ہو گی۔یہ ساری صورتحال ڈویژن کے آپس میں رابطوں کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ فرنس آئل سے 16 روپے فی یونٹ بجلی بنتی ہے جبکہ ایل این جی سے بنائی گئی بجلی 10 روپے فی یونٹ بنائی جاتی ہے۔ پٹرولیم ڈویژن اور پاورڈویژن میں رابطوں کا فقدان تھا اور یہی وجہ تھی کہ پاور ڈویژن کو بروقت ایل این جی درآمد نہ ہونے کی وجہ سے خزانے کو بارہ ارب روپے کا نقصان ہوا۔تھرمل بجلی گھر فرنس آئل پر چلانے سے قومی خزانے کو بارہ ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ جس پر وزیراعظم عمران خان بھی خاموش نہیں رہ سکے اور وزرا کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔اس معاملے پر بات کرتے ہوئے سینئیر تجزیہ کار خاور گھمن نے کہا کہ ایک اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے بھی اس معاملے پر برہمی کا اظہار کیاتھا اور ان سے کہا تھا کہ میں پوری دنیا سے پیسے مانگتا پھر رہا ہوں، بجٹ خسارے کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور آپ لوگ آپس میں رابطے نہ کر کے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔انہوں نے ہدایت کی تھی کہ جلد از جلد اس معاملے کو بہتر کیا جائے اور آئندہ آپس میں مسلسل رابطے میں رہا جائے تاکہ بغیر کسی وجہ سے قومی خزانے کو اتنا بڑا نقصان نہ ہو۔ خاور گھمن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں موجود کئی لوگ دوسری سیاسی جماعتوں سے آئے ہوئے ہیں ، کوئی پہلے مسلم لیگ ن میں تھا تو کوئی پیپلز پارٹی میں، شاید یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آپس میں بات نہیں کرتے اور ان کے بات نہ کرنے کی وجہ سے قومی خزانے کو اتنا بھاری نقصان ہوتا ہے جس کا خمیازہ حکومت کو بھگتنا پڑتا ہے۔